کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 32
جواز تجزئۃ الاجتھاد‘ والذی علیہ المحققون من أھل العلم جوازہ وصحتہ۔‘‘[1]
’’مجتہد کے مختلف مسائل پر عبور یا اقتصار کے اعتبار سے اجتہادکی دو قسمیں ہیں :اجتہاد مطلق اور اجتہاد جزئی‘ مجتہد مطلق وہ ہے جو کہ اس درجہ اجتہاد کو پہنچ چکا ہو کہ اس کے لیے زندگی کے تمام گوشوں سے متعلق مسائل میں غور و فکر ممکن ہو۔مجتہد جزئی وہ ہے جو تمام مسائل میں درجہ اجتہاد کو نہ پہنچا ہو‘ بلکہ وہ بعض معین مسائل(مثلاً عبادات)‘ کسی معین گوشہ زندگی(مثلاً معاشیات)یا کسی معین فن(مثلاً وراثت) سے متعلق مسائل میں اجتہاد کے درجے تک پہنچتا ہواور اس کے علاوہ مسائل سے ناواقف ہو۔علماء کا جزوی اجتہاد کے بار ے میں اختلاف ہے لیکن محققین علماء کا موقف یہی ہے کہ جزئی اجتہاد جائز اور صحیح ہے۔‘‘
علمائے أصولیین کی اکثریت نے اجتہادکی اس تقسیم کو اصول کی کتابوں میں بیان کیا ہے اور ’تجزؤ الاجتہاد‘کے عنوان کے تحت ’اجتہاد جزئی‘کی اجازت دی ہے۔اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو علوم اسلامیہ میں تخصص(یعنی ڈاکٹریٹ)کرنے والا طالب علم بھی’مجتہد فی المسئلۃ‘ہوتا ہے کیونکہ عموماً پی۔ ایچ۔ ڈی میں ایک مسئلے سے متعلق تمام معلومات ‘ دلائل اور نتائج علمی اسلوب میں اصول تحقیق کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے فراہم کر دیے جاتے ہیں ۔
تیسری تقسیم
علت کے اعتبار سے اجتہادکی تین قسمیں ہیں ۔ایک تحقیق المناط‘ دو سری تنقیح المناط اور تیسری تخریج المناط۔’تحقیق المناط‘ کے بارے میں ڈاکٹرمحمد بن حسین بن الحسن الجیزانی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ینقسم الاجتھاد بالن سبۃ لعلۃ الحکم إلی ثلاثۃ أقسام : تحقیق المناط‘ وتنقیحہ‘ وتخریجہ۔فتحقیق المناط: ھو أن یعلق الشارع‘ الحکم بمعنی کلی‘ فینظر المجتھد فی ثبوتہ فی بعض الأنواع أو بعض الأعیان کالأمر با ستقبال القبلۃ وا ستشھاد شھیدین عدلین فینظر ھل المصلی مستقبل القبلۃ؟ وھذا الشخص ھل ھو عدل مرضی؟وھذا النوع من الاجتھاد متفق علیہ بین المسلمین بل بین العقلاء۔‘‘[2]
’’علت کے اعتبار سے اجتہادکی تین قسمیں ہیں : تحقیق المناط‘ تنقیح المناط اور تخریج المناط۔ تحقیق المناط سے مراد یہ ہے کہ شارع کسی حکم کو کسی کلی معنی سے معلق کر دے تو مجتہد بعض انواع یا بعض اعیان میں اس حکم کے ثبوت کے لیے غور و فکر کرے‘ جیسا کہ ا ستقبال قبلہ یا دو عادل گواہوں کی گواہی لینے کا معاملہ ہے۔ پس ایک مجتہد اس مسئلے میں غور وفکر کرے گا کہ ایک نمازی قبلہ رخ ہے یا نہیں ؟ا سی طرح ایک شخص عادل اور گواہی کے لیے منا سب ہے یانہیں ؟اجتہاد کی یہ قسم مسلمانوں بلکہ اہل عقل کے درمیان بھی متفق علیہ ہے۔‘‘
’تنقیح‘ باب تفعیل سے مصدر ہے اور اس کا معنی چھان پھٹک ہے یعنی چھان پھٹک کر کسی حکم کی علت معلوم کرنے کا طریقہ ’تنقیح المناط‘ ہے۔ڈاکٹرمحمد بن حسین بن الحسن الجیزانی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’وتنقیح المناط:وھو تھذیب العلۃ‘ فإذا أضاف الشارع حکما إلی سببہ واقترن بذلک أوصاف لا مدخل لھا فی إضافۃ الحکم‘ وجب حذف الأوصاف غیر المؤثرۃ عن الاعتبار وإبقاء الوصف المؤثرالمعتبر فی الحکم۔وذلک کأمر النبی صلي اللّٰه عليه وسلم الأعرابی الذی واقع أھلہ فی رمضان بالکفارۃ فعلم أن کونہ أعرابیا‘ أو عربیا‘ أو الموطوء ۃ زوجتہ‘ لا أثر لہ فی الحکم‘ فلو وطیٔ المسلم العجمی سریتہ کان الحکم کذلک‘ وھذا النوع قد أقر بہ أکثر منکری القیا س۔‘‘[3]
[1] معالم أصول الفقہ عند أھل السنۃ والجماعۃ:ص۴۶۶
[2] أیضاً:ص۴۶۷۔۴۶۸
[3] أیضاً:ص۴۶۸