کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 30
تلاش‘ مصادراحکام میں تلاش‘ ا سالیب اجتہاد کی روشنی میں تلاش وغیرہ کی قیود کو بیان نہیں کیا گیا‘یہ تعریف بھی اجتہاد کی لغوی تعریف کے زیادہ قریب ہے۔
اجتہاد کی نویں تعریف علامہ آمدی متوفی۶۳۱ھ نے کی ہے جنہوں نے’ا ستفراغ الو سع فی طلب الظن بشیء من الأحکام الشرعیۃ علی وجہ یحس من النفس العجز عن المزید علیہ‘میں امام رازی رحمہ اللہ کی اضافی قید کو برقرار رکھتے ہوئے اس میں ’ظن‘ کی قید کا مزید اضافہ کیا ہے جس کے مطابق اکثر و بیشتر اجتہادی احکام شرعیہ میں علم قطعی کی بجائے گمان ِ غالب حاصل ہوتا ہے۔ اس تعریف میں شرعی احکام کی تلاش کو اجتہاد کہا گیا ہے جو مجتہد ہی کی طرف سے ہوتی ہے اور مصادر احکام میں ہوتی ہے۔علامہ آمدی رحمہ اللہ نے ا سالیب اجتہاد کا تذکرہ نہیں کیا ہے جو کہ ایک ایسی قید ہے کہ جس کا بیان کرنا بہتر تھا۔علامہ آمدی رحمہ اللہ کی یہ تعریف امام غزالی رحمہ اللہ کی تعریف سے متضاد نہیں ہے کیونکہ ہر ایک نے اجتہادی احکام کی غالب تعداد کا لحاظ رکھتے ہوئے ’علم‘ یا ’ظن‘ کا اضافہ اپنی تعریف میں کر دیا ہے جبکہ دونوں باتیں در ست ہیں ۔ بعض اوقات اجتہاد کے نتیجے میں کوئی ایسا شرعی حکم معلوم ہوتا ہے جو کہ علم یقین کا فائدہ دیتا ہے مثلاً کسی اجتہادی حکم میں ما بعد کے زمانوں میں اجماع ہو جائے اور بعض مسائل میں کوئی اجتہادی حکم ظن غالب کا فائدہ دیتا ہے ‘ خاص طور پر جب کسی اجتہادی مسئلے میں فقہاء کے مابین اختلاف ہو۔
اجتہاد کی د سویں تعریف’ا ستفراغ الو سع فی تحصیل العلم أو الظن‘میں ‘ امام شاطبی رحمہ اللہ متوفی ۷۹۰ھ نے‘امام غزالی رحمہ اللہ اور علامہ آمدی رحمہ اللہ دونوں کی تعریفوں کو جمع کرنے کی کوشش ہے جو اجتہاد کی تعریف کا مزید ارتقاء و بیان ہے۔ اس تعریف کے مطابق اجتہاد سے علم و ظن دونوں حاصل ہوتے ہیں ۔
اجتہاد کی گیارہویں تعریف امام زرکشی رحمہ اللہ متوفی ۷۹۴ ھ نے پیش کی ہے ۔انہوں نے ’بذل ا لجھد فی نیل حکم شرعی عملی بطریق الا ستنباط‘میں ’علم‘ اور’ظن‘ دونوں کی قید ہٹا دی ہے جس کی وجہ سے تعریف اپنی تقدیر عبارت سے ان دونوں کو شامل ہوتی ہے جبکہ امام زرکشی رحمہ اللہ نے اجتہاد کی تعریف میں استنباط کے معروف طریقوں کے ذریعے اجتہاد کرنے پر زور دیا ہے۔
معاصرمفکرین میں سے ڈاکٹر اقبال مرحوم اور جاوید احمد غامدی نے اجتہاد کی جو تعریف بیان کی ہے وہ أئمہ سلف کے منہج سے ہٹی ہوئی تعریف ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ اجتہاد کے نام پر اس وقت جتنے بھی نئے نئے فتنے برپا ہو رہے ہیں ‘ ان سب فتنوں کی بنیادیہی تعریف اجتہاد ہے‘ تو بے جا نہ ہوگا۔ اقبال مرحوم کی تعریف کا سہارا لیتے ہوئے مغرب سے متاثر متجددین قرآن سے ثابت شدہ مجمع علیہ حدود الہی کو بھی اجتہاد کا محل قرار دیتے ہیں اور غامدی صاحب کی تعریف سے متاثر ا سکالرزحضرات ہر دو سرے مسئلے کے بارے یہ کہہ کر کہ اس میں شریعت خاموش ہے ‘ اجتہاد کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔
اقبال مرحوم ایک مخلص مسلمان اور اللہ اور اس کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے انسان تھے لیکن وہ علوم شرعیہ میں ’ر سوخ فی العلم‘نہیں رکھتے تھے۔وہ برصغیر میں پائے جانے والے تقلیدی جمود کی انتہاء کو امت مسلمہ کی ترقی و نشوونما میں ایک بہت بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے ‘ جس کی وجہ سے وہ اجتہاد کی اہمیت پر زور دیتے تھے ۔اور غالباًیہی وجہ ہے کہ ان کے خطبات میں ایک مکمل خطبہ’ اجتہاد‘ کے موضوع سے متعلق بھی ہے۔اقبال مرحوم نہ تو کوئی مجتہد تھے اور نہ ہی فقیہ ‘ وہ ایک مفکر اسلام تھے ‘ لہذا اجتہاد کی تعریف میں أئمہ سلف کے متفق علیہ تصورکے بالمقابل اقبال مرحوم کے کسی قول کو نقل کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ سورج کو چرا غ دکھانا ہے۔أئمہ سلف میں سے کسی ایک نے بھی فقہی مسائل میں آزادانہ رائے کو اجتہاد کا نام نہیں دیا جیسا کہ علامہ مرحوم کی رائے ہے ‘بلکہ علماء کے نزدیک تو احکام شرعیہ میں اس قسم کی آزادانہ آراء الحاد تو کہلائی جا سکتیں ہیں لیکن اجتہاد نہیں ۔
ا سی طرح قرآن و سنت اور ان سے مستنبط شدہ مآخذ و مصادر کی روشنی میں کسی نئے مسئلے کا حل تلاش کرنا تو اجتہادہے لیکن محض عقلی رائے بیان کر دینا اجتہاد نہیں ہے جیسا کہ غامدی صاحب کا کہنا ہے۔اگر کوئی صاحب أئمہ سلف کے تصور اجتہاد ہی کی روشنی میں اجتہاد کی اپنی کوئی نئی