کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 29
دو سری تعریف امام ابو بکر جصاص رحمہ اللہ متوفی ۳۷۰ھ کی طرف سے’بذل المجھود بأحکام الحوادث التی لیس للّٰہ علیھا دلیل قائم یوصل الی العلم بالمطلوب منھا‘کے الفاظ میں سامنے آئی۔ اس تعریف کے مطابق امام جصاص رحمہ اللہ نے قیاس کو اجتہاد کی ایک قسم قرار دیتے ہوئے اجتہاد کی تین اقسام بیان کیں یعنی انہوں نے قیاس کو اجتہاد سے الگ ایک محدود اصطلاح قرار دیا‘ یہ اجتہاد کی تعریف کا ارتقا ہے ۔ تیسری تعریف امام ابن حزم رحمہ اللہ متوفی ۴۵۶ھ نے ’ا ستفاد الطاقۃ فی طلب حکم النازلۃ حیث یوجد ذلک الحکم‘کے الفاظ میں پیش کی گئی ہے ۔امام جصاص رحمہ اللہ اور امام ابن حزم رحمہ اللہ کی تعریف میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں حضرات نے’حادثہ‘ اور ’نازلہ‘ یعنی کسی پیش آمدہ واقعے کے حکم کو تلاش کرنے کی جدوجہد کو اجتہادکہا ہے۔امام جصاص رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ نئے پیش آمدہ واقعے کے حکم کی تلاش اجتہاد ہے جبکہ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اس تعریف پر یہ اضافہ کیا ہے کہ کسی نئے واقعے کے حکم کی اس جگہ تلاش اجتہاد ہے جہاں وہ حکم پایا جاتا ہو۔امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی تعریف میں ’مصادر احکام‘ سے کسی حکم کے استنباط کو اجتہاد قرار دیا ہے۔ اجتہاد کی تعریف میں امام صاحب رحمہ اللہ کی طرف سے ’مآخذ احکام‘ کی یہ قید اجتہاد کی تعریف کا ارتقاء و مزید بیان ہے۔ اجتہادکی چوتھی تعریف امام الحرمین امام جوینی رحمہ اللہ متوفی ۴۷۸ھ نے ’بذل الو سع فی بلوغ الغرض أی حکم شرعی‘کے الفاظ سے کی ہے جبکہ امام بیضاوی رحمہ اللہ متوفی ۶۸۵ھ نے ا سی تعریف کو’ا ستفراغ الو سع فی درک الأحکام الشرعیۃ‘ سے بیان کیا ہے۔ اس تعریف میں حکم شرعی کی تلاش کو اجتہاد کہا گیا ہے۔امام جصاص رحمہ اللہ اور امام ابن حزم رحمہ اللہ کی تعریف میں کسی پیش آنے والے حادثے یا واقعے کے شرعی حکم کی تلاش کو اجتہاد کہا گیا تھاجبکہ اس تعریف میں مطلقاً کسی شرعی حکم کی تلاش کو اجتہاد کہا گیا ہے‘ چاہے وہ کوشش کسی حادثے یا وقوعے کے بعد ہو یا اس کے واقع ہونے سے قبل ہو‘ یہ اجتہاد کی تعریف کا مزید ارتقاء اور بیان ہے۔ اجتہادکی پانچویں تعریف ’بذل الجھد فی ا ستخراج الأحکام من شواھدھا الدالۃ علیھا بالنظر المؤدی إلیھا‘میں امام أبو المظفر السمعانی رحمہ اللہ متوفی ۴۸۹ھ نے مطلقاً کسی حکم شرعی کی دلائل شرعیہ یا مصادر احکام میں تلاش کواجتہاد کا نام دیا ہے جو اجتہاد کی تعریف کا مزید ارتقاء ہے۔ اجتہاد کی چھٹی تعریف امام غزالی رحمہ اللہ متوفی ۵۰۵ھ کی ہے جنہوں نے’بذل المجتھد و سعہ فی طلب العلم بأحکام الشریعۃ‘میں حکم شرعی سے متعلق علم یعنی یقین کی تلاش کو اجتہاد کہا ہے۔امام غزالی رحمہ اللہ نے مجتہد کی جدوجہد کو اجتہاد کہا ہے ‘ جبکہ ان سے پہلے أصولیین نے مجتہد کی شرط نہیں لگائی تھی‘یہ بھی اجتہاد کی تعریف کا مزید ارتقاء و بیان ہے۔امام غزالی رحمہ اللہ نے اجتہاد کی تعریف میں لفظ’علم ‘ کا اضافہ کر کے اکثراجتہادی احکام کے یقینی ہونے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے‘علاوہ ازیں مصادر احکام اورمآخذ شرعیہ کی شرط کو نکال کر تعریف کو مختصر بھی کر دیا ہے کیونکہ ایک مجتہد مصادر شریعت ہی سے احکام شرعیہ کا استنباط کرتا ہے۔ اجتہاد کی ساتویں تعریف امام ابن رشدمتوفی ۵۹۵ھ کی ہے جنہوں نے ’بذل الو سع فی الطلب بالآلات التی تشترط فیہ‘میں احکام شرعیہ کی تلاش میں اصل اہمیت اجتہاد کے ا سالیب اور طرق کو دی ہے۔ اور اجتہاد کے معروف ا سالیب ‘طرق اور شرائط کے ذریعے ہی کسی حکم شرعی کی تلاش کو اجتہاد قرار دیاہے‘یہ اجتہاد کی تعریف کا مزید ارتقا ء ہے۔مجتہد اور مصادر احکام کی شرائط اس تعریف میں مقدر(understood)ہیں ۔ اجتہاد کی آٹھویں تعریف’ا ستفراغ الو سع فی النظر فیما لا یلحقہ فیہ لوم مع ا ستفراغ الو سع فیہ‘میں امام رازی رحمہ اللہ متوفی ۶۰۶ھ نے اصل زور اس بات پر دیا ہے کہ ایک مجتہد کو کسی شرعی حکم کی تلاش میں اپنی جدوجہد‘ طاقت‘ قوت اور صلاحیتوں کو انتہائی درجے میں کھپا دینا چاہیے۔یعنی کسی شرعی حکم کی سر سری تلاش اجتہاد نہیں کہلائے گی ۔ اس تعریف میں اجتہاد کے لغوی معنی اور باب افتعال کی خصوصیت ِ اکتساب کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔اجتہاد کی اس تعریف میں تصور اجتہاد کو ایک نئے اسلوب سے پیش کیاگیا ہے۔مجتہد کی تلاش‘ حکم شرعی کی