کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 28
ڈاکٹر محمود احمد غازی لکھتے ہیں :
’’اجتہاد کے معنی یہ ہے کہ کسی ایسی صورت حال میں جس کے بارے میں قرآن مجید اور سنت میں براہ را ست کوئی حکم موجود نہ ہو‘ قرآن و سنت کے احکام پر غور کر کے اس کاحکم معلو م کیا جائے۔حکم شریعت کی دریافت کے اس عمل کا نام اجتہادہے۔گویا جتہاد ایک عمومی اصول ہے۔۔۔انگریزی میں اجتہاد کے مفہوم کو بیان کرنا ہو تو یوں کہا جائے گا:
To exhast your capacity to discover Shariah ruling about a new situation in the light of the Quran and Sunnah.
یہ ہے اجتہاد۔کہ قرآن و سنت کی روشنی میں کسی نئی صورت حال کا حکم معلوم کرنے کے لیے اپنی صلاحیت کو پورے طور پر استعمال کر ڈالنا‘ علم اور صلاحیتوں کو اس طرح نچوڑ دینا کہ اس سے آگے صلاحیت کے استعمال کرنے کی کوئی حد یا سکت باقی نہ رہے۔ اس عمل کا نام اجتہادہے۔‘‘[1]
مولانا وحید الدین خان لکھتے ہیں :
’’اجتہاد سے مراد آزادانہ رائے قائم کرنا نہیں ہے ۔اجتہاد سے مراد یہ ہے کہ قرآن و سنت جو کہ اسلام کے اصل مصادر(sources)ہیں ‘ان پر غور کر کے قیا سی یا ا ستنباطی طور پر شریعت کے نئے احکام معلوم کرنا۔‘‘[2]
جاوید احمد غامدی اور منظور الحسن لکھتے ہیں :
’’اجتہاد کا لغوی مفہوم کسی کام کو پوری سعی و جہد کے ساتھ انجام دینا ہے۔ اس کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ جس معاملے میں قرآن و سنت خاموش ہیں ‘ اس میں نہایت غور و حوض کر کے دین کی منشا کو پانے کی جدوجہد کی جائے۔۔۔ اس اصطلاح کو اگر مذکورہ روایت کی روشنی میں سمجھا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اجتہاد سے مراد اپنی عقل و بصیرت سے ان امور کے بارے میں رائے قائم کرنا ہے جن میں قرآن و سنت خاموش ہیں یا انہوں نے کوئی متعین ضابطہ بیان نہیں کیا۔‘‘[3]
اجتہادکی مختلف تعریفوں کا ایک تجزیاتی مطالعہ
مذکورہ بالا بحث میں ہم اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ اجتہادکی تقریبا د س ‘ بارہ تعریفیں ایسی ہیں جو مستقل بالذات تعریفیں معلوم ہوتی ہیں جبکہ دو سری تمام تعریفیں انہی تعریفوں کی وضاحت‘ بیان‘ شرح ‘اضافہ یااختصار ہیں ۔جب ہم اجتہاد کی ان د س‘ بارہ بنیادی تعریفوں پر غور کرتے ہیں تو یہ تعریفیں بھی باہم متضاد نہیں ہیں بلکہ ایک دو سرے کا بیان و ارتقاء معلوم ہوتی ہیں ۔ عام طور پر معاصر علماء میں یہ فکر عام ہے کہ اجتہاد کی تعریف میں متقدمین کا بہت اختلاف ہے ‘ اکثرو بیشتر اصول فقہ کی کتب کے نامور مصنفین نے بھی متقدمین کی بعض تعریفوں پر نقد کرتے ہوئے انہیں ناقص قرار دیااور کسی ایک تعریف کو راجح قرار دیاہے۔ہمارے خیال میں اجتہاد کی تعریف میں متقدمین کا یہ اختلاف تنوع کا اختلاف ہے جو تصوراجتہاد کے مختلف پہلوؤں اور گوشوں کی وضاحت کرتا ہے‘مزید برآں اجتہاد کی تعریف میں متقدمین کا یہ اختلاف اجتہاد کے تصور میں اختلاف نہیں ہے بلکہ اجتہاد کی ایک جامع و مانع تعریف کی تعیین کا ارتقاء ہے۔اجتہاد کی تعریف میں اس نوعی اختلاف کے باجود تمام أئمہ سلف کا تصور اجتہاد ایک ہی تھا۔یعنی عملاً اجتہاد کی جو صورتیں ان کے ہاں رائج تھیں ‘ وہ کم و بیش ایک ہی طرح کی تھیں لیکن ان مختلف صورتوں کو الفاظ کی صورت میں منضبط کرنے میں علماء نے مختلف الفاظ کا انتخاب کیا ہے۔
اجتہاد کی پہلی تعریف امام شافعی رحمہ اللہ متوفی ۲۰۴ھ کی طرف سے’الاجتھاد ھو القیا س‘ کی صورت میں سامنے آئی اور ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ امام صاحب رحمہ اللہ کے نزدیک قیاس کا مفہوم بہت و سیع ہے ۔
[1] محاضرات فقہ : ص۳۳۱۔۳۳۲
[2] مسائل اجتہاد: ص۱۸
[3] ماہنامہ اشراق‘اجتہاد‘جون ۲۰۰۱‘ ص۲۷۔۲۸