کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 27
’’اصطلاحی طور پر کسی عملی شرعی حکم کو بذریعہ استنباط معلوم کرنے کی خاطر انتہائی درجے کی کوشش کرنا‘اجتہاد ہے۔‘‘
حافظ ثناء اللہ زیدی حفظہ اللہ نے اجتہادکی ا سی تعریف کو اختیار کرتے ہوئے اس میں ’مجتہد‘ کی قید کا اضافہ کیا ہے اور’ عملی‘ کی قید کو ہٹا دیا ہے جو کہ اس تعریف کا ارتقاء اور مزید بیان ہے ۔وہ لکھتے ہیں :
’’اصطلاحاً: ا ستفراغ المجتھد جھدہ فی نیل حکم شرعي بطریق الا ستنباط۔‘‘[1]
’’اصطلاحی طور پر کسی عملی شرعی حکم کو بذریعہ استنباط معلوم کرنے کی خاطر کسی مجتہد کا انتہائی درجے کی کوشش کرنا‘اجتہاد ہے۔‘‘
شیخ یو سف قرضاوی حفظہ اللہ نے بھی امام شوکانی رحمہ اللہ کی تعریف کو راجح قرار دیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں :
’’وأما فی اصطلاح الأصولیین ‘ فقد عبروا عنہ بعبارات متفاوتۃ‘ لعل أقربھا ما نقلہ الامام الشوکانی فی کتابہ’’إرشاد الفحول‘‘ فی تعریفہ بقولہ:’’بذل الو سع فی نیل حکم شرعی عملی بطریق الا ستنباط۔‘‘[2]
’’أصولیین کی اصطلاح میں اجتہادکی تعریف میں کئی عبارتیں مروی ہیں ان میں سے سب سے زیادہ صحیح وہ عبارت ہے جسے امام شوکانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’ارشاد الفحول‘میں نقل کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی عملی شرعی حکم کو بذریعہ استنباط معلوم کرنے کی خاطر کسی مجتہد کا انتہائی درجے کی کوشش کرنا‘اجتہاد ہے۔‘‘
شیخ عبد المنان بن عبد الحق نورپوری حفظہ اللہ نے اس تعریف کو بیان کرتے ہوئے اس میں ’ظن‘ کی قید کا بھی اضافہ کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں :
’’الاجتھاد فی ر سمہ أقوال أولاھا ا ستفراغ الفقیہ و سعہ لتحصیل ظن بحکم شرعي عملي بالا ستنباط و لابد لصدقہ من ملکۃ الا ستخراج۔‘‘[3]
’’ اجتہاد کی تعریف میں کئی ایک اقوال ہیں جن میں سب سے بہتر قول یہ ہے کہ کسی عملی شرعی حکم سے متعلق ظن غالب کوبذریعہ استنباط معلوم کرنے کی خاطر کسی فقیہ کا انتہائی درجے کی کوشش کرنا‘اجتہاد ہے اور کسی اجتہاد کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مجتہد میں ا ستخراج وا ستنباط ِ احکام کا مَلکہ بھی موجود ہو۔‘‘
شیخ محمد ابراہیم شقرۃ حفظہ اللہ نے بھی امام شوکانی رحمہ اللہ کی تعریف کی تائید کی ہے۔[4]
اجتہاد کی بارہویں تعریف
معاصر علماء نے اجتہاد کی تعریف مختلف ا سالیب و الفاظ میں بیان کی ہے ۔یہاں ہم ان میں سے چند ایک معروف تعاریف کو بیان کر رہے ہیں ۔ڈاکٹر محمد اقبال رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’لغوی اعتبار سے تو اجتہادکا معنی ہے کوشش کرنا‘ لیکن فقہ اسلامی کی اصطلاح میں اس کا مطلب ہے وہ کوشش جو کسی قانونی مسئلے میں آزادانہ رائے قائم کرنے کے لیے کی جائے۔‘‘[5]
پروفیسر طاہر القادری فرماتے ہیں :
’’قرآن ‘ سنت اور اجماع کی روشنی میں مقرر کردہ شرائط کے مطابق استنباط و ا ستخراج کے طریقے پر شرعی احکام اور قوانین کی تشکیل ‘ تجدید‘ تعبیر‘ تفصیل‘ تو سیع اور تنفیذ کے لیے ماہرانہ علمی کاوش کو اجتہادکہتے ہیں ۔‘‘[6]
[1] تلخیص الأصول: ص۶۱
[2] الاجتھاد فی الشریعۃ الإسلامیۃ: ص۱۱
[3] نخبۃ الأصول: ص۶۸
[4] الرأی السدید فی الاجتھاد والتقلید:ص۳
[5] تشکیل جدید إلہیات إسلامیۃ : ص ۲۲۸
[6] سہ ماہی منہاج ‘ اجتہادعلماء کی نظر میں (سولات و جوابات)‘جنوری ۱۹۸۳ء‘ص۲۹۱