کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 26
’’میرے نزدیک اجتہادکی بہترین تعریف یہ ہے کہ کسی فقیہ کا تفصیلی دلائل سے کسی عملی شرعی حکم سے متعلق ظن غالب کو حاصل کرنے کے لیے اپنی مقدور بھر صلاحیت کو خرچ کرنا‘ اجتہاد ہے ۔‘‘ اجتہاد کی د سویں تعریف امام ابراہیم بن مو سی الغرناطی الشاطبی رحمہ اللہ متوفی ۷۹۰ھ لکھتے ہیں : ’’الاجتھاد ھو ا ستفراغ الو سع فی تحصیل العلم أو الظن بالحکم۔‘‘[1] ’’اجتہاد سے مراد حکم(شرعی) سے متعلق ظن غالب یا قطعی علم حاصل کرنے کے لیے اپنی صلاحیت کو کھپا دیناہے۔‘‘ شیخ عطیہ محمد سالم اور شیخ عبد المحسن بن حماد حفظہما اللہ نے ا سی تعریف کو اختیار کیاہے لیکن انہوں نے اس میں دلائل شرعیہ کی قید کا اضافہ کیا ہے جو اس تعریف کا مزید بیان ہے۔وہ لکھتے ہیں : ’’وفی الاصطلاح بذل الو سع فی النظر فی الأدلۃ للحصول علی القطع أو الظن بحکم شرعي۔‘‘[2] ’’ کسی حکم شرعی سے متعلق ظن غالب یا قطعی علم حاصل کرنے کے لیے دلائل شرعیہ میں غور و فکر کرتے ہوئے اپنی صلاحیت کو کھپانا‘ اجتہادہے۔‘‘ اجتہاد کی گیارہویں تعریف امام بدر الدین محمد بن بھادر بن عبد اللہ الشافعی الزرکشی رحمہ اللہ متوفی ۷۹۴ھ اجتہادکی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’وفی الإصطلاح بذل الو سع فی نیل حکم شرعی عملی بطریق الإ ستنباط۔فقولنا بذل أی بحیث یحس من نفسہ العجز عن مزید طلب حتی لا یقع لوم فی التقصیر وخرج الشرعی اللغوی والعقلی والح سی فلا ی سمی عند الفقہاء مجتھدا وکذلک الباذل و سعہ فی نیل حکم شرعی عملی وإن کان قد ی سمی عند المتکلمین مجتھدا وإنما قلنا بطریق الا ستنباط لیخرج بذلک بذل الو سع فی نیل تلک الأحکام من النصوص ظاھرا أو بحفظ المسائل وا ستعلامھا من المعنی أو بالکشف عنھا من الکتاب فإنہ و إن سمی اجتھادا فھو لغۃ لا اصطلاحاً۔‘‘[3] ’’ کسی عملی شرعی حکم کو بذریعہ استنباط معلوم کرنے کی خاطر انتہائی درجے کی کوشش کرنااجتہاد ہے۔ ہماری تعریف میں ’بذل‘ کے لفظ سے مراد ایسی کوشش ہے کہ انسان اس سے زیادہ سے عاجز ہو اور اس پر اپنی کوشش میں کسی قسم کی کوتاہی کا الزام بھی نہ آئے ۔’شرعی‘ کی قید لگانے سے لغوی ‘ عقلی اور ح سی احکام نکل گئے پس ایسے لوگ فقہاء کے نزدیک مجتہدین نہیں ہیں ‘ اگرچہ بعض متکلمین کے نزدیک اس شخص کو مجتہد کہا جاتاہے جو کسی عملی شرعی حکم کو بذریعہ استنباط معلوم کرنے کی خاطر انتہائی درجے کی کوشش کرنے والا ہو۔’ا ستنباط‘ کی شرط ہم نے اس لیے لگائی تاکہ اس سے وہ کوشش اس تعریف میں شامل نہ ہو جو نصوص کے ظاہر سے احکام نکالنے یا مسائل کے یاد کرنے اور ان کے معنی جاننے یا کتاب اللہ کے معانی معلوم کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ اگرچہ ا سے بھی اجتہادکہا گیا ہے لیکن اس سے مراد لغوی اجتہاد ہوتاہے۔ ‘‘ امام محمد بن علی بن محمدالشوکانی رحمہ اللہ متوفی ۱۲۵۵ھ نے بھی اجتہادکی ا سی تعریف کو اختیار کیاہے۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ھو فی الاصطلاح بذل الو سع فی نیل حکم شرعی عملی بطریق الا ستنباط۔‘‘[4]
[1] الموافقات:۴؍ ۱۱۳ [2] تسھیل الوصول: ص۷۷ [3] البحر المحیط:۶؍ ۱۹۷ [4] إرشاد الفحول: ص۲۵۰