کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 25
ظني۔‘‘[1]
’’لغوی طور اس سے مراد کسی مشقت والی چیز کے حصول میں اپنی طاقت خرچ کرنا اور اصلاح میں کسی فقیہ کا کسی شرعی حکم کو معلوم کرنے کے لیے مشقت اٹھانا‘ اجتہاد ہے۔‘‘
امام أٔبو یحی زکریابن محمد بن زکریاأنصاری رحمہ اللہ متوفی۹۲۶ھ نے بھی قاضی تاج الدین سبکی رحمہ اللہ کی طرح اس تعریف کو مختصر کرتے ہوئے ’شرعی‘ کی قید کو ہٹا دیا ہے کیونکہ ایک فقیہ شرعی حکم کی تلاش میں ہی اپنی طاقت خرچ کرتا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :
’’ا ستفراغ الفقیہ الو سع لتحصیل الظن بالحکم۔‘‘[2]
’’ کسی حکم(شرعی) سے متعلق ظن کو حاصل کرنے کے لیے ایک فقیہ کا اپنی صلاحیت کو کھپا دینا‘اجتہادکہلاتا ہے ۔‘‘
امام محب اللہ بن عبد الشکور الہندی البہاری رحمہ اللہ متوفی ۱۱۹۹ھ نے بھی لکھتے ہیں :
’’الاجتھاد بذل الطاقۃ من الفقیہ فی تحصیل حکم شرعی ظنی۔‘‘[3]
’’اجتہاد سے مراد کسی فقیہ کا کسی شرعی حکم سے متعلق ظن غالب کو حاصل کرنے لیے اپنی طاقت کو خرچ کرنا ہے ۔‘‘
ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد المحسن الترکی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’وأمثل تعریف للاجتھاد فی نظرنا تعریف الکمال بن الھمام فی التحریر حیث عرف الاجتھاد بأنہ بذل الطاقۃ من الفقیہ فی تحصیل حکم شرعي ظني۔‘‘[4]
’’ہمارے خیال میں اجتہادکی بہترین تعریف ابن ہمام کی ہے جو انہوں نے اپنی کتاب’التحریر‘میں بیان کی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ اجتہاد سے مراد کسی فقیہ کا کسی شرعی حکم سے متعلق ظن غالب کو حاصل کرنے کے لیے اپنی طاقت کو خرچ کرنا ہے۔‘‘
شیخ عبد الرحمن بن عبد الخالق یو سف حفظہ اللہ نے بھی اجتہادکی اس تعریف میں فقیہ کی قید نہیں لگائی ہے ۔وہ لکھتے ہیں :
’’عرف العلماء الاجتھاد الشرعی بأنہ الجھد للوصول إلی ظن بحکم شرعی۔وھذا یعنی أن المجتھد یبذل جھدہ لیعرف مراد اللّٰہ فی قضیۃ ما۔‘‘[5]
’’علماء نے اجتہادکی شرعی تعریف یوں بیان کی ہے کہ اس سے مراد کسی شرعی حکم سے متعلق ظن غالب تک پہنچنے کے لیے کوشش کرناہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مجتہد کسی مسئلے میں اللہ کی مراد(حکم)کو جاننے کے لیے اپنی صلاحیت لگاتا ہے۔ ‘‘
شیخ أحمد شاکر حنبلی رحمہ اللہ نے اجتہادکی اس تعریف میں فقیہ کی قید ہتانے کے ساتھ ساتھ ’دلیل‘ کا اضافہ بھی کیا ہے جو کہ اس تعریف کا مزید ارتقاء ہے ۔وہ لکھتے ہیں :
’’ا ستفراغ الجھد(بالضم)أی الطاقۃ لتحصیل ظن بحکم شرعي فرعي عن دلیلہ۔‘‘[6]
’’ کسی شرعی حکم کی دلیل سے اس حکم سے متعلق ظن کو حاصل کرنے کے لیے اپنی طاقت کو خرچ کرنا اجتہادہے۔‘‘
ڈاکٹر عبد الکریم بن علی بن محمد نملۃ حفظہ اللہ نے اس تعریف کو راجح قرار دیتے ہوئے اس میں ’دلائل‘ کی قید کا ضافہ کیاہے۔وہ لکھتے ہیں :
’’وأولی تعریف عندی ھو بذل الفقیہ ما فی و سعہ لتحصیل ظن بحکم شرعی عملی من الأدلۃ التفصیلیۃ۔‘‘[7]
[1] التقریر والتحبیر:۳؍ ۲۹۱
[2] غایۃ الوصول:ص۱۴۷
[3] مسلم الثبوت: ص۲۷۶
[4] أصول مذہب الامام الأحمد: ص۲۵۵
[5] السلفیون والأئمۃ الأربعۃ: ص۵
[6] أصول الفقہ الإسلامی: ص۳۸۸
[7] إتحاف ذوی البصائر: ۸؍ ۱۰