کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 24
’’وفی الاصطلاح ا ستفراغ الفقیہ الو سع لتحصیل ظن بحکم شرعي۔‘‘[1] ’’اصطلاح میں فقیہ کا کسی شرعی حکم سے متعلق ظن غالب کو حاصل کرنے کے لیے اپنی صلاحیت کو کھپا دینا‘ اجتہاد کہلاتا ہے۔‘‘ قاضی عضد الملۃ و الدین رحمہ اللہ متوفی ۷۵۶ھ نے بھی یہی تعریف بیان کی ہے ۔وہ لکھتے ہیں : ’’و فی الاصطلاح ا ستفراغ الفقیہ الو سع لتحصیل ظن بحکم شرعي۔‘‘[2] ’’اصطلاح میں فقیہ کا کسی شرعی حکم سے متعلق ظن غالب کو حاصل کرنے کے لیے اپنی صلاحیت کو کھپا دینا‘ اجتہاد کہلاتا ہے۔‘‘ قاضی تاج الدین عبد الوھاب علی السبکی رحمہ اللہ متوفی ۷۷۱ھ نے بھی اس تعریف کو کچھ اختصار کے ساتھ بیان کیاہے ۔انہوں نے حکم کے ساتھ شرعی کی قید ہٹا دی کیونکہ وہ مقدر(understood)ہے ۔یہ اس تعریف کا ارتقاء ہے ۔وہ لکھتے ہیں : ’’الاجتھاد ا ستفراغ الفقیہ الو سع لتحصیل ظن بحکم۔‘‘[3] ’’اصطلاح میں فقیہ کا کسی حکم(شرعی)سے متعلق ظن غالب کو حاصل کرنے کے لیے اپنی صلاحیت کو کھپا دینا‘ اجتہاد کہلاتا ہے۔‘‘ امام جمال الدین عبدالرحیم بن الحسن إ سنوی رحمہ اللہ متوفی ۷۷۲ھ نے بھی اجتہاد کی وہی تعریف بیان کی ہے جو قاضی تاج الدین سبکی رحمہ اللہ نے کی ہے ۔وہ لکھتے ہیں : ’’وفی الاصطلاح ما ذکرہ المصنف۔‘‘[4] ’’اصطلاحی طور پر اجتہاد سے مراد وہی ہے جس کا ذکر مصنف(تاج الدین سبکی رحمہ اللہ )نے کیا ہے۔‘‘ علامہ سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی رحمہ اللہ متوفی۷۹۲ھ نے بھی اجتہاد کی اس تعریف میں فقیہ کی قید کو بڑھا دیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں : ’’وفی الاصطلاح ا ستفراغ الفقیہ الو سع لتحصیل ظن بحکم شرعی‘ وھذا ھو المراد بقولھم: بذل المجھود لنیل المقصود ومعنی ا ستفراغ الو سع بذل تمام الطاقۃ بحیث یحس من نفسہ العجز عن المزید علیہ فخرج ا ستفراغ غیر الفقیہ و سعہ فی معرفۃ حکم شرعی فبذل الفقیہ فی معرفۃ حکم شرعی قطعی‘ أو فی الظن بحکم غیر شرعی لیس باجتھاد۔‘‘[5] ’’اصطلاح میں فقیہ کا کسی حکم ِشرعی سے متعلق ظن غالب کو حاصل کرنے کے لیے اپنی صلاحیت کو کھپا دینا‘ اجتہاد کہلاتا ہے۔اور علماء کے قول‘ مقصود کے حصول کے لیے اپنی طاقت کو خرچ کرنے کا بھی یہی معنی ہے ۔’ا ستفراغ الو سع‘ سے مراد اپنی تمام طاقت اس طرح خرچ کر دینا ہے کہ اس سے مزید سے انسان کا نفس عاجز ہو۔ پس اس تعریف کے مطابق ایک غیر فقیہ کی کسی شرعی حکم کی معرفت میں کی جانے والی کوشش اور کسی فقیہ کا کسی قطعی شرعی حکم کی تلاش میں اپنے آپ کوکھپا دینا اور کسی فقیہ کا کسی غیر شرعی حکم سے متعلق ظن کو حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنا‘ اس تعریف سے خارج ہے۔‘‘ علامہ آمدی رحمہ اللہ نے’ علی وجہ یحس من النفس العجز عن المزید فیہ‘کے الفاظ کا تعریف میں جو اضافہ کیا تھا ا سے مابعد کے فقہاء نے’ا ستفراغ الو سع‘کے الفاظ میں ہی شامل سمجھ کرتعریف کو مختصر کر دیا اور یہ اختصار بھی اس تعریف کا ارتقا ہے ۔ ابن ہمام حنفی رحمہ اللہ متوفی ۸۶۱ ھ لکھتے ہیں : ’’ھو لغۃ بذل الطاقۃ فی تحصیل ذی کلفۃ واصطلاحاً ذالک من الفقیہ فی تحصیل حکم شرعي
[1] منتھی الوصول:ص۲۰۹ [2] مختصر المنتھی الأصولی:۲؍ ۲۸۹ [3] جمع الجوامع: ص۱۱۸ [4] نھایۃ السؤل:۴؍ ۵۲۵ [5] شرح التلویح : ۲؍ ۲۴۴