کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 23
’’وأما فی عرف الفقھاء فھو ا ستفراغ الو سع فی النظر فیما لا یلحقہ فیہ لوم مع ا ستفراغ الو سع فیہ۔‘‘[1]
’’فقہاء کے عرف میں کسی چیز میں غور وفکر کرتے ہوئے اپنی صلاحیت کو اس درجے کھپا دینا کہ اس صلاحیت کے لگانے میں کوئی ملامت باقی نہ رہے ‘ اجتہاد کہلاتا ہے۔‘‘
امام سراج الدین محمود بن أبو بکرأرموی رحمہ اللہ متوفی ۶۸۲ھ نے بھی ا سی تعریف کو اختیار کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں :
’’و عند الفقہاء ا ستفراغ الو سع فی النظر فیما لا یلحقہ فیہ لوم مع ا ستفراغ الو سع فیہ۔‘‘[2]
’’فقہاء کے نزدیک کسی چیز میں غور وفکر کرتے ہوئے اپنی صلاحیت کو اس درجے کھپا دینا کہ اس صلاحیت کے لگانے میں کوئی ملامت باقی نہ رہے ‘ اجتہاد کہلاتا ہے۔‘‘
امام شہاب الدین أحمد بن ادری س بن عبد الرحمن المصری القرافی رحمہ اللہ متوفی ۶۸۴ ھ نے بھی تقریباًیہی تعریف بیان کی ہے ۔امام صاحب لکھتے ہیں :
’’فی عرف الفقہاء فھو ا ستفراغ الو سع فی النظر فیما لا یلحقہ فیہ لوم مع ا ستفراغ الو سع فیہ۔‘‘[3]
’’فقہاء کے عرف میں کسی چیز میں غور وفکر کرتے ہوئے اپنی صلاحیت کو اس درجے کھپا دینا کہ اس صلاحیت کے لگانے میں کوئی ملامت باقی نہ رہے ‘ اجتہاد کہلاتا ہے۔‘‘
اجتہاد کی نویں تعریف
امام سیف الدین علی بن أبی علی بن محمدبن سالم الآمدي رحمہ اللہ متوفی ۶۳۱ھ لکھتے ہیں :
’’ا ستفراغ الو سع في طلب الظن بشیء من الأحکام الشرعیۃ علی وجہ یحس من النفس العجز عن المزید فیہ۔‘‘[4]
’’ کسی حکم شرعی سے متعلق غالب گمان کی تلاش میں اپنی صلاحیت کو اس طرح کھپا دینا کہ اس سے مزید کسی قوت کے لگانے سے اس کا نفس عاجز ہو۔‘‘
علامہ سید محمد صدیق حسن خان بہادر رحمہ اللہ متوفی ۱۳۵۷ھ نے بھی ا سی تعریف کو اختیار کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں :
’’وفی الاصطلاح ا ستفراغ الو سع فی طلب الظن بشیء من الأحکام الشرعیۃ علی وجہ یحس من النفس العجز عن المزید علیہ۔‘‘[5]
’’ کسی حکم شرعی سے متعلق غالب گمان کی تلاش میں اپنی صلاحیت کو اس طرح کھپا دینا کہ اس سے مزید کسی قوت کے لگانے سے اس کا نفس عاجز ہو۔‘‘
امام جلال الدین أبو عمرو عثمان بن عمرو بن أبی بکر المالکی المعروف بابن الحاجب رحمہ اللہ متوفی ۶۴۶ھ نے بھی علامہ آمدی رحمہ اللہ کی تعریف کو ایک نئے اسلوب سے بیان کیا ہے لیکن انہوں نے فقیہ کی قید کا اضافہ کیا ہے جو اجتہاد کی اس تعریف کا ارتقاء اور مزید بیان ہے۔امام صاحب لکھتے ہیں :
[1] المحصول للرازی: ۶؍ ۷
[2] التحصیل من المحصول: ص۲۸۱
[3] نفائس الأصول فی شر ح المحصول: ۹؍ ۳۹۷۲
[4] الإحکام فی أصول الأحکام: ۴؍ ۱۶۹
[5] حصول المأمول: ص۱۵۴