کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 22
و الاجتھاد التام أن یبذل الو سع فی الطلب بحیث یحس من نفسہ بالعجز عن مزید طلب۔‘‘[1]
’’اجتہاد کا لفظ علماء کے عرف میں اس معنی کے ساتھ مخصوص ہے کہ کسی فقیہ کا شرعی احکام کا علم حاصل کرنے میں اپنی صلاحیت کھپا دینا۔اور اجتہادتام یہ ہے کہ شرعی حکم کی تلاش میں مجتہد اپنی اتنی طاقت لگا دے کہ اس سے مزید کسی کوشش کی گنجائش سے اس کا نفس عاجزہو۔‘‘
ڈاکٹر عبد الکریم زیدان حفظہ اللہ نے اس تعریف میں استنباط کے طریقوں کے لفظ کا اضافہ کیا ہے جو اس تعریف کا ارتقاء ہے۔وہ لکھتے ہیں :
’’وفی اصطلاح الأصولیین: بذل المجتھد و سعہ فی طلب العلم بالأحکام الشرعیۃ بطریق الا ستنباط۔‘‘[2]
’’أصولیین کی اصطلاح میں مجتہد کا شرعی احکام کا علم حاصل کرنے کے لیے استنباط کے طریقے سے اپنی صلاحیت کھپانا‘ اجتہاد کہلاتا ہے۔‘‘
شیخ عبد اللہ بن صالح الفوزان حفظہ اللہ نے اس تعریف میں طرق استنباط کے ساتھ دلائل شرعیہ کی قید کا بھی اضافہ کیا ہے جو اس تعریف کا مزید بیان ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’واصطلاحاً: بذل المجتھد و سعہ في طلب العلم بالحکم الشرعي بطریق الا ستنباط من أدلۃ الشرع۔‘‘[3]
’’اصطلاحی طور پر مجتہد کا دلائل شرعیہ میں بذریعہ ا ستباط کسی شرعی حکم کے علم کی تلاش میں اپنی صلاحیت کھپانا‘ اجتہادہے ۔‘‘
شیخ عبد اللہ بن یو سف الجدیع حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’و اصطلاحاً: ا ستفراغ الفقیہ و سعہ فی طلب العلم بالأحکام الشرعیۃ بطریق الا ستنباط من أدلۃ الشرع۔‘‘[4]
’’اصطلاحی طور پر فقیہ کا دلائل شرعیہ میں بذریعہ ا ستباط کسی شرعی حکم کے علم کی تلاش میں اپنی طاقت کھپا دینا‘ اجتہادہے ۔‘‘
اجتہاد کی ساتویں تعریف
امام أبو الولید محمد بن أحمد بن محمد بن أحمدابن رشد القرطبی الأندلسی المعروف بابن رشد الحفید رحمہ اللہ متوفی ۵۹۵ھ نے اپنی تعریف اجتہادمیں اجتہاد کے مناہج اور أ سالیب کو نمایاں کیا ہے ۔ امام صاحب لکھتے ہیں :
’’أما الاجتھاد فھو بذل المجتھد و سعہ فی الطلب بالآلات التي تشترط فیہ۔‘‘[5]
’’اجتہاد سے مراد کسی مجتہد کا کسی شرعی حکم کی تلاش میں ان آلات(طرق وذرائع)کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو کھپا دینا‘ جو کہ اجتہادمیں بطور شرط مقرر کیے گئے ہیں ۔‘‘
اجتہاد کی آٹھویں تعریف
امام فخر الدین محمد بن عمر بن الحسین الرازی رحمہ اللہ متوفی ۶۰۶ھ لکھتے ہیں :
[1] أصول الفقہ:ص۳۶۷
[2] الوجیزفی أصول الفقہ:ص۴۰۱
[3] خلاصۃ الأصول:ص۲۸
[4] تیسیر علم أصول الفقہ: ص۳۰۶
[5] الضروري فی أصول الفقہ: ص۱۳۷