کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 21
اپنی صلاحیت کو بھرپور طریقے سے خرچ کرناہے‘چاہے یہ مسائل شرعی ہوں یا عقیدے سے متعلق ہوں ‘ عقلی ہوں یا نقلی ہوں ‘ قطعی ہوں یا ظنی ہوں ۔ مولانا محمد عبید اللہ أ سعدی حفظہ اللہ نے بھی اس سے ملتی جلتی تعریف بیان کی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’شرعی دلائل کی روشنی میں احکام شرع کو جاننے کے لیے اپنی علمی و فکری صلاحیتوں کو پورے طورپر صرف کرنا۔‘‘[1] اجتہاد کی چھٹی تعریف امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی رحمہ اللہ متوفی ۵۰۵ھ لکھتے ہیں : ’’وھو عبارۃ عن بذل المجھود وا ستفراغ الو سع فی فعل من الأفعال ولا یستعمل إلا فیما فیہ کلفۃ وجھد فیقال اجتھد فی حمل حجر الرحا ولا یقال فی حمل خردلۃ لکن صار اللفظ فی عرف العلماء مخصوصاً ببذل المجتھد و سعہ فی طلب العلم بأحکام الشریعۃ والاجتھاد التام أن یبذل الو سع فی الطلب بحیث یحس من نفسہ بالعجز عن مزید۔‘‘[2] ’’ اس سے مراد کسی کام کے کرنے میں اپنی طاقت کو لگا دینا اور اپنی صلاحیت کھپا دینا ہے اور یہ فعل ا سی جگہ استعمال کیا جاتا ہے جہاں کوئی مشقت ہو پس یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے چکی کا پاٹ اٹھانے کے لیے اجتہاد کیا(مشقت اٹھائی)لیکن کسی رائی کے دانے کو اٹھانے کے لیے اجتہاد کا لفظ استعمال نہیں ہوتا۔علماء کے عرف میں یہ لفظ اس مفہوم کے ساتھ خاص ہے کہ شرعی احکام کے علم کی تلاش میں مجتہد کا اپنی صلاحیتوں کو لگادینا اجتہاد ہے۔اجتہاد تام یہ ہے کہ شرعی حکم کی تلاش میں مجتہد اپنی اتنی طاقت لگا دے کہ اس سے مزید کسی کوشش کی گنجائش سے اس کا نفس عاجزہو۔‘‘ امام علاء الدین عبد العزیز بن أحمدالبخاری رحمہ اللہ متوفی ۷۳۰ ھ نے بھی ا سی تعریف کو بیان کیاہے لیکن انہوں نے مجتہد کی قید نہیں لگائی لیکن یہ مقدر (understood)ہے ۔وہ لکھتے ہیں : ’’ فی اصطلاح الأصولیین مخصوصاً ببذل المجھود فی طلب العلم بأحکام الشرع والاجتھاد التام أن یبذل الو سع فی الطلب بحیث یحس من نفسہ بالعجز عن مزید طلب۔‘‘[3] ’’أصولیین کی اصطلاح میں شرعی احکام کے علم کی تلاش میں اپنی صلاحیت کھپا دینے کے ساتھ یہ لفظ خاص ہے اور اجتہادتام یہ ہے کہ شرعی حکم کی تلاش میں مجتہد اپنی اتنی طاقت لگا دے کہ اس سے مزید کسی کوشش کی گنجائش سے اس کا نفس عاجزہو۔‘‘ أبو محمد عبد اللہ بن أحمد بن محمدابن قدامۃ بن مقدام بن نصرحنبلی المعروف بابن قدامہ المقد سی رحمہ اللہ متوفی ۶۲۰ ھ لکھتے ہیں : ’’وھو فی عرف الفقھاء مخصوص ببذل الجھد فی العلم بأحکام الشرع۔‘‘[4] ’’فقہاء کی اصطلاح میں شرعی احکام کا علم حاصل کرنے میں اپنی صلاحیت کو کھپا دینے کے ساتھ یہ لفظ خاص ہے۔‘‘ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے بھی مجتہد اور فقیہ کی قید نہیں لگائی کیونکہ یہ بات فقہاء اور علماء کے نزدیک معروف ہے کہ اجتہاد‘ مجتہد اور فقیہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔گویا کہ امام غزالی رحمہ اللہ کی تعریف کو مختصر کیا گیاہے ۔ الشیخ محمد الخضري بک رحمہ اللہ نے بھی امام غزالی رحمہ اللہ ہی کی تعریف کو بیان کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں : ’’ثم صار ھذا اللفظ فی عرف العلماء مخصوصاً ببذل الفقیہ و سعہ فی طلب العلم بأحکام الشریعۃ
[1] أصول الفقہ: ص۲۵۶ [2] المستصفی:ص۳۴۲ [3] کشف الأسرار: ۴؍ ۱۴ [4] روضۃ الناظر:۱؍ ۳۵۲