کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 20
’’الاجتھاد ھو بذل الفقیہ ما فی و سعہ من جھد لا ستنباط الأحکام الشرعیۃ من مدارکھا الفقھیۃ۔‘‘[1]
’’اجتہاد سے مراد کسی فقیہ کا احکام شرعیہ کو ان کے فقہی مصادر سے اخذ کرنے کے لیے اپنی مقدور بھر کوشش خرچ کرناہے۔‘‘
عبد الوھاب عبد السلام طویلۃ حفظہ اللہ نے بھی ا سی تعریف کو اختیار کیا ہے اورفقیہ کی شرط بڑھانے کے ساتھ ساتھ لفظ دلائل کی وضاحت کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’واصطلاحاً بذل الفقیہ و سعہ فی استنباط الأحکام الشرعیۃ من أدلتھا التفصیلیۃ۔‘‘[2]
’’اصطلاحی طور پر اجتہاد سے مراد کسی فقیہ کا شرعی احکام کو ان کے تفصیلی دلائل سے مستنبط کرنے کے لیے اپنی صلاحیت کو کھپا دیناہے۔‘‘
ا سی تعریف کو شیخ ولید بن راشد السعیدان حفظہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں :
’’بذل الو سع فی النظر فی الأدلۃ الشرعیۃ لا ستنباط الأحکام الشرعیۃ ولا یجوز إلا من عالم فقیہ۔‘‘[3]
’’شرعی اصطلاح میں اجتہاد سے مرادہے شرعی دلائل میں غور و فکر کے دوران اپنی صلاحیت کو لگادینا تاکہ ان دلائل سے احکام شرعیہ کو مستنبط کیا جا سکے اور اجتہاد کا عمل صرف عالم فقیہ ہی سے جائز ہے ‘‘۔
شیخ محمد بن حسین بن حسن الجیزانی حفظہ اللہ نے بھی اپنی کتاب’الاجتھاد فی النوازل‘میں بعینہ ا سی تعریف کو بیان کیاہے لیکن فقیہ کی قید نہیں لگائی ہے۔شیخ محمد أبو زہرۃ رحمہ اللہ نے بھی یہی تعریف کی ہے لیکن احکام کے ساتھ ’عملی‘ کی قید کا اضافہ کیاہے ۔وہ لکھتے ہیں :
’’وفی اصطلاح علماء الأصول بذل الفقیہ و سعہ فی استنباط الأحکام العملیۃ من أدلتھا التفصیلیۃ ویعرف بعض العلماء الاجتھاد فی اصطلاح الأصولیین بأنہ ا ستفراغ الجھد وبذل غایۃ الو سع إما فی استنباط الأحکام الشرعیۃ وإما فی تطبیقاتھا وکان الاجتھاد علی ھذا التعریف قسمین: أحدھما خاص با ستنباط الأحکام وبیانھا والقسم الثانی خاص بتطبیقھا۔‘‘[4]
’’علمائے أصول کی اصطلاح میں کسی فقیہ کا عملی احکام کو تفصیلی دلائل سے اخذ کرنے کے لیے اپنی صلاحیت کو کھپانا‘ اجتہاد کہلاتا ہے۔بعض علماء نے أصولیین کی اصطلاح میں اجتہاد کی تعریف یوں بیان کی ہے کہ اس سے مراد شرعی احکام کو مستنبط کرنے کے لیے یا ان کی تطبیق(application)کے لیے اپنی طاقت اور انتہائی درجے میں صلاحیت کو کھپا دیناہے۔ اس تعریف کے مطابق اجتہاد کی دوقسمیں ہوں گی:ایک قسم تو وہ ہے جو استنباط احکام کے ساتھ خاص ہو گی جبکہ دو سری قسم احکام کی تطبیق (application)کے ساتھ خاص ہے‘‘۔
ڈاکٹر صبحي صالح حفظہ اللہ نے اس تعریف کو ایک نئے اسلوب سے بیان کیا ہے اور اس میں شرعی اور ظنی احکام کی قید کے ساتھ ساتھ عقلی‘ نقلی‘قطعی کی قید کا بھی اضافہ کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں :
’’وللاجتھاد تعریفات کثیرۃ تؤول بمجموعھا إلی أنہ ا ستفراغ الجھد فی استنباط القضایا الدینیۃ شرعیۃ أو عقدیۃ وعقلیۃ أو نقلیۃ وقطعیۃ أو ظنیۃ من أدلتھا التفصیلیۃ۔‘‘[5]
’’اجتہاد کی کئی تعریفیں کی گئی ہیں ان سب کا مفہوم یہ ہے کہ اجتہاد سے مراد دینی مسائل کو ان کے تفصیلی دلائل سے اخذ کرنے کے لیے
[1] الوجیز المیسر فی أصول الفقہ المالکی: ص۱۴۱
[2] أثر اللغۃ فی اختلاف المجتھدین: ص۳۰
[3] مختصر فی أصول الفقہ:ص۱۹
[4] أصول الفقہ:ص۳۵۶
[5] معالم الشریعۃ: ص۳۲