کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 19
’’اجتہاد سے مراد احکام کو ان کے ان دلائل سے نکالنا جو کہ ان احکام پر رہنمائی کر رہے ہوں جبکہ ان دلائل پر ایسا غور و فکر کیا جائے جو ان احکام تک پہنچا دے۔‘‘ امام زین الدین قا سم بن قطلوبغا رحمہ اللہ متوفی ۸۷۹ھ نے بھی ا سی تعریف کو بیان کیا ہے لیکن انہوں نے احکام کے ساتھ ان کے شرعی ہونے کی قید کو بڑھا دیا ہے۔وہ لکھتے ہیں : ’’وھو [عند أھل الأصول] بذل المجھود فی ا ستخراج الأحکام الشرعیۃ من أدلتھا۔‘‘[1] ’’اجتہاد سے مراد احکام شرعیہ کو ان کے دلائل سے اخذ کرنے کے لیے اپنی طاقت کو خرچ کرناہے۔‘‘ ڈاکٹر خالد بن علی المشیقح حفظہ اللہ نے ا سی تعریف کو ایک نئے اسلوب سے بیان کیاہے۔وہ لکھتے ہیں : ’’وأما فی الاصطلاح فھو: بذل الو سع بالنظر فی الأدلۃ الشرعیۃ لا ستنباط الأحکام الشرعیۃ۔‘‘[2] ’’شرعی اصطلاح میں اجتہاد سے مرادہے شرعی دلائل میں غور و فکر کے دوران اپنی صلاحیت کو لگادینا تاکہ ان دلائل سے احکام شرعیہ کو مستنبط کیا جا سکے۔ ‘‘ أ ستاذ علی ح سب اللہ حفظہ اللہ نے بھی یہی تعریف ایک اور اسلوب سے بیان کی ہے اور لفظ’ا ستفراغ‘کی مزید وضاحت کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں : ’’وفی اصطلاح الأصولیین بذل الفقیہ جھدہ فی استنباط حکم شرعی من دلیلہ علی وجہ یحس فیہ العجز عن المزید۔‘‘[3] ’’أصولیین کی اصطلاح میں کسی شرعی حکم کو اس کی دلیل سے مستنبط کرنے کے لیے کسی فقیہ کا اپنی طاقت کو اس طرح کھپا دینا کہ اس سے زائد کوشش کرنے سے اس کا نفس عاجز ہو۔‘‘ شیخ عبد الوھاب خلاف رحمہ اللہ نے ا سی تعریف کو اختیار کیا ہے لیکن لفظ دلائل کی مزید وضاحت کر دی ہے جو اس تعریف کا ارتقاء ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ’’الاجتھاد فی اصطلاح الأصولیین ھو بذل الجھد للوصول إلی الحکم الشرعي من دلیل تفصیلي من الأدلۃ الشرعیۃ۔‘‘[4] ’’أصولیین کی اصطلاح میں اجتہاد سے مراد شرعی دلائل میں سے کسی تفصیلی(جزئی)دلیل کے ذریعے کسی شرعی حکم تک پہنچنے میں اپنی طاقت خرچ کرناہے‘‘۔ أ ستاذ مصطفی زرقاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’الاجتھاد: ھو عملیۃ استنباط الأحکام الشرعیۃ من أدلتھا التفصیلیۃ فی الشریعۃ۔‘‘[5] ’’اجتہاد شرعی احکام کو شریعت میں موجود تفصیلی(جزئی)دلائل سے اخذ کرنے کے عمل کا نام ہے ۔‘‘ علامہ محمد عبد الغنی الباجقنی رحمہ اللہ نے ا سی تعریف کو بیان کرتے ہوئے لفظ دلائل کی مزید وضاحت کر دی ہے اور فقیہ کی شرط بھی بڑھا دی ہے جو اس تعریف کا مزید ارتقاء ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
[1] خلاصۃ الأفکار شرح مختصر المنار: ص۲۲۹ [2] شرح رسالۃ ابن سعدی في الأصول:ص۱۲۵ [3] أصول التشریع الإسلامی:ص۸۷ [4] أصول الفقہ الإسلامی: ص۲۵۷ [5] أصول الفقہ الإسلامی:۲؍ ۱۰۳۹