کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 17
جائیں ۔صلاحیت کے کھپانے سے مراد یہ ہے کہ اس طرح اپنی صلاحیتوں کو لگا دے کہ اس سے مزید کی گنجائش نہ رہے۔’درک حکم‘ سے مراد کوئی اجتہادی یعنی ظنی حکم ہے ۔شرعی کی قید اس لیے لگائی ہے تاکہ عقلی اور ح سی احکامات اس تعریف میں داخل نہ ہوں ۔علماء کی ایک جماعت نے ’شرعی‘ کی قید اس لیے نہیں لگائی کہ فقیہ کاذکر آنے کے بعد اس قید کو بڑھانے کاکوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ فقیہ صرف شرعی احکام کے بارے میں ہی گفتگو کرتا ہے۔‘‘
امام قطب الدین احمد بن عبد الرحیم بن وجیہ الدین فاروقی المعروف بشاہ ولی اﷲ دہلوی رحمہ اللہ متوفی ۱۱۷۶ھ نے امام بیضاوی رحمہ اللہ ہی کی تعریف کو اختیار کرتے ہوئے اس میں دلائل شرعیہ کی قید کا اضافہ کیا ہے ۔امام صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’الاجتھاد علی ما یفھم من کلام العلماء ا ستفراغ الجھد فی إدارک الأحکام الشرعیۃ الفرعیۃ من أدلتھا التفصیلیۃ الراجعۃ کلیاتھا إلی أربعۃ أقسام الکتاب والسنۃ والإجماع والقیاس ویفھم من ھذا أنہ أعم من أن یکون ا ستفراغا فی إدراک حکم ما سبق التکلم فیہ من العلماء ال سابقین أو لا واقفھم فی ذلک أو خالف ومن أن یکون بإعانۃ البعض فی التنبیہ علی صور المسائل والتنبیہ علی مآخذ الأحکام من الأدلۃ التفصیلیۃ أو بغیر إعانۃ منہ فما یظن فیمن کان موافقا لشیخہ فی أکثر المسائل لکنہ یعرف لکل حکم دلیلا ویطمئن قلبہ بذلک الدلیل وھو علی بصیرۃ من أمرہ أنہ لیس بمجتھد ظن فا سد وکذلک ما یظن من أن المجتھد لا یوجد فی ھذہ الأزمنۃ علی الظن الأول بناء علی فا سد۔‘‘[1]
’’علماء کے کلام کے مطابق اجتہاد سے مراد کسی شرعی فرعی حکم کو اس کے تفصیلی(جزئی)دلائل‘ جوچار کلی دلائل قرآن ‘ سنت ‘ اجماع اور قیاس کی طرف لوٹتے ہیں ‘ سے معلوم کرنے کے لیے اپنی طاقت کو حتی الامکان خرچ کرنا ہے۔ اس تعریف سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعریف اس اعتبار سے عام ہے کہ اجتہاد چاہے کسی ایسے حکم کو پانے کے لیے کیا جائے جس کے بارے میں علمائے متقدمین اپنی کسی رائے کا اظہار کر چکے ہوں یا انہوں نے اس بارے میں کوئی گفتگو نہ کی ہو۔ا سی طرح چاہے وہ اجتہاد میں علمائے متقدمین کی موافقت کرے یا مخالفت(دونوں صورتوں میں وہ اجتہاد ہی کہلائے گا)۔ ا سی طرح چاہے کسی مسئلے میں اجتہاد کے دوران میں وہ متقدمین کے مآخذ شریعت سے بیان کردہ تفصیلی دلائل سے باخبر ہو اور ان کی اعانت سے کوئی اجتہادی رائے دے یا وہ ان کی اعانت کے بغیر ہی کسی اجتہادی رائے کا اظہار کرے(دونوں صورتوں میں اس کایہ عمل اجتہاد ہی کہلائے گا)۔ا سی طرح اگر کوئی شخص اکثر مسائل میں اپنے کسی شیخ کی موافقت کرتا ہے لیکن وہ ہر حکم کی دلیل جانتا ہے اور اس کا دل اس دلیل پر مطمئن بھی ہے اور وہ ہر رائے علی وجہ البصیرۃ پیش کرتا ہے ‘ تو ایسے شخص کے بارے میں یہ گمان رکھنا کہ وہ مجتہد نہیں ہے ‘ گمان فا سد ہے۔ا سی طرح پہلے گمان کے مطابق یہ رائے رکھنا کہ اس زمانے میں کوئی مجتہد نہیں پایا جاتا‘ بھی ایک فا سد گمان ہے ۔‘‘
شاہ ا سماعیل شہید رحمہ اللہ متوفی ۱۲۴۶ھ نے بھی ا سی تعریف کو اختیار کیا ہے لیکن احکام کے ساتھ ’أفاعیل‘ کی قید بڑھا دی ہے جو کہ اس تعریف کا مزید بیان ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں :
’’السعي فی إدراک الأحکام المتعلقۃ بأفاعیلھا من أدلتھا وھو الاجتھاد عزیمۃ۔‘‘[2]
’’احکام شرعیہ‘ جو کہ اپنے افاعیل سے متعلق ہوں ‘ کو ان کے دلائل سے معلوم کرنے کے لیے کوشش کرنا‘ اجتہاد کہلاتا ہے اور یہ عزیمت ہے۔‘‘
حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ نے بھی’مختصر الأصول‘ کی شرح میں ا سی تعریف کو اختیار کیاہے۔[3]
[1] عقد الجید:ص۳
[2] مختصر فی أصول الفقۃ:ص۱۲۹
[3] بغیۃ الفحول: ص۱۲۹