کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 15
اجتہاد کی چوتھی تعریف
أبو المعالی عبد الملک بن عبد اللہ بن یو سف بن محمد بن عبد اللہ الجوینی رحمہ اللہ الملقب بامام الحرمین متوفی ۴۷۸ھ لکھتے ہیں :
’’وأما الاجتہاد فھو بذل الو سع فی بلوغ الغرض۔‘‘[1]
’’اجتہاد سے مراد کسی مقصودتک پہنچنے کے لیے اپنی طاقت کھپا دینا ہے۔‘‘
شیخ عبد اللہ بن صالح الفوزان حفظہ اللہ اس تعریف کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’وھذا تعریف عام‘ ھو التعریف اللغوي أقرب‘ فلا بد من تقییدہ بالحکم الشرعي‘ لأن المراد البحث فی الاجتھاد الذي ھو طریق لإثبات حکم شرعي۔فیکون المراد بالغرض: الحکم الشرعي المطلوب۔ولو قیدہ بالفقیہ وقال: بذل الفقیہ و سعہ لبلوغ الغرض لکان کافیا‘ کما فی جمع الجوامع‘ لأن الفقیہ لا یتکلم إلا فی الأحکام الشرعیۃ۔‘‘ [2]
’’یہ اجتہادکی عام تعریف ہے جو اس کی لغوی تعریف کے قریب ہے۔ پس اس تعریف میں حکم شرعی کی قید لگانا ضروری ہے کیونکہ امام صاحب کی مراد اجتہاد کی بحث ہے جو کسی شرعی حکم کے اثبات کا طریقہ ہے۔ پس اس تعریف میں غرض سے مراد مطلوب شرعی حکم ہے۔اگر امام صاحب فقیہ کی قید بھی لگا دیتے اور یہ کہتے کہ کسی فقیہ کی کسی مقصود تک پہنچنے کے لیے کی جانے والی کوشش اجتہاد ہے ‘ تو یہ بھی کافی ہوتا جیسا کہ’ جمع الجوامع‘ میں ہے کیونکہ فقیہ صرف احکام شرعیہ سے متعلق ہی بحث کرتا ہے۔ ‘‘
شیخ فیصل بن عبد العزیز آل مبارک رحمہ اللہ متوفی ۱۳۷۶ھ نے بھی امام جوینی رحمہ اللہ کی تعریف کو اختیار کیا ہے۔وہ فرماتے ہیں :
’’بذل الو سع فی بلوغ الغرض۔‘‘[3]
’’اجتہاد سے مراد کسی مقصودتک پہنچنے کے لیے اپنی طاقت کھپا دینا ہے۔‘‘
امام ابو ا سحاق ابراہیم بن علی بن یو سف فیروز آبادی شیرازی رحمہ اللہ متوفی ۴۸۶ھ نے اس تعریف کو ن سبتاً وضاحت سے بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’الاجتھاد فی عرف الفقہاء: ا ستفراغ الو سع وبذل المجھود فی طلب الحکم الشرعی۔‘‘[4]
’’فقہاء کے عرف میں اجتہاد سے مراد ہے کسی شرعی حکم کی تلاش میں اپنی قوت کو صرف کرنا اور اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح کھپا دیناہے۔‘‘
یہ تعریف دراصل مذکورہ بالا تعریف کا ارتقاء اور بیان ہے۔ اس تعریف میں ’غرض‘ کی تشریح ’حکم شرعی‘ سے کی گئی ہے۔
امام أبوبکر محمد بن عبد اللّٰہ بن العربی المالکی الأندلسی رحمہ اللہ متوفی ۵۴۳ھ نے ا سی تعریف کو ایک نئے اسلوب سے بیان کیاہے۔انہوں نے ’غرض‘ کی جگہ ’صواب‘ کے لفظ کو بیان کیاہے ۔وہ لکھتے ہیں :
’’وھی بذل الجھد وا ستفاد الو سع فی طلب الصواب‘ افتعال من الجھد۔‘‘[5]
’’حق کی تلاش میں اپنی طاقت کو لگانا اور صلاحیت کو کھپانا اجتہادہے ۔یہ باب افتعال سے ہے اور اس کا مادہ ’جہد‘ ہے۔‘‘
امام عبد اللہ بن عمربیضاوی رحمہ اللہ متوفی ۶۸۵ھ نے امام أبو ا سحاق شیرازی رحمہ اللہ کی تعریف کو ’طلب‘ کی بجائے’درک‘ کے الفاظ سے بیان
[1] شرح الورقات فی أصول الفقہ:ص۲۶۳
[2] أیضاً
[3] مقام الرشاد بین التقلید والاجتہاد: ص۲۶
[4] اللمع فی أصول الفقہ: ص۷۲
[5] أصول الفقہ لابن العربی:ص۷۸