کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 14
الذرائع اور مصلحت وغیرہ کو استعمال کیا ہے لیکن امام شافعی رحمہ اللہ اور بعض دو سرے فقہاء مثلاً امام احمد رحمہ اللہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور امام ابن قیم رحمہ اللہ وغیرہ ان اصولوں سے ا ستدلال کو قیاس کی بحث کے تحت لاتے ہیں ‘ علیحدہ سے مستقل بالذات مأخذ کے طور پر بیان نہیں کرتے لہذا امام جصاص رحمہ اللہ نے اجتہاد کی جوتیسری قسم بیان کی ہے وہ علماء کے مابین اختلافی ہے۔
اجتہاد کی تیسری تعریف
امام أبو محمد علی بن أحمد بن سعید بن حزم أندلسی رحمہ اللہ متوفی ۴۵۶ ھ لکھتے ہیں :
’’الاجتھاد أنہ افتعال من الجھد وحقیقۃ معناھا أنہ ا ستفاد الجھد فی طلب الشیء المرغوب إدراکہ حیث یرجی وجودہ فیہ أو حیث یوقن بوجودہ فیہ ھذا مالا خلاف بین أھل اللغۃ فیہ۔۔۔فالاجتھاد فی الشریعۃ ھو ا ستفاد الطاقۃ فی طلب حکم النازلۃ حیث یوجد ذلک الحکم ھذا ما لا خلاف بین أحد أھل العلم بالدیانۃ فیہ قال أبو محمد وإنما قلنا فی تفسیر الاجتھاد العام حیث یرجی وجودہ فعلقنا الطلب بمواضع الرجاء وقلنا فی تفسیر الاجتھاد فی الشریعۃ حیث یوجد ذلک الحکم فلم نعلقہ بالرجاء لأن أحکام الشریعۃ کلھا متیقن أن اللّٰہ تعالیٰ قد بینھا بلا خلاف۔‘‘[1]
’’اجتہاد کا لفظ باب افتعال سے ہے اور اس کا مادہ ’جھد‘ہے۔اجتہاد کا معنی ہے کسی مرغوب چیز کی تلاش میں اپنی طاقت کو اس جگہ کھپا دینا جہاں اس کے وجود کا گمان یا یقین حاصل ہو۔ اجتہاد کے اس لغوی معنی میں اہل لغت میں سے کسی کابھی اختلاف نہیں ہے۔۔۔جبکہ شریعت میں اجتہاد سے مراد کسی مسئلے کا حکم تلاش کرنے میں اپنی طاقت کو اس جگہ لگا دینا ہے جہاں وہ حکم پایا جاتا ہو۔دیانت دار علماء میں سے کسی کا بھی اس تعریف سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :ہم نے اجتہاد کے عمومی معنی میں یہ بات کہی ہے کہ جہاں اس چیز کے ملنے کا گمان ہو اس جگہ اس کو تلاش کیا جائے پس ہم نے تلاش کو امید کی جگہوں سے بھی معلق کر دیا ہے لیکن اجتہاد کی شرعی تعریف میں ہم نے صرف اس جگہ کسی حکم کی تلاش کو اجتہاد کہا ہے جہاں وہ شرعی حکم پایا جاتا ہو۔ شرعی تعریف کو ہم نے گمان کی جگہوں سے متعلق نہیں کیا ہے کیونکہ شریعت کے تمام احکامات یقینی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو خوب اچھی طرح واضح کر دیا ہے ۔‘‘
آگے چل کر اس بحث کو مزید نکھارتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’فأحکام الشریعۃ کلھا مضمونۃ الوجود لعامۃ العلماء وإن تعذر وجود بعضھا علی بعض الناس فمحال ممتنع أن یتعذر وجودہ علی کلھم لأن اللّٰہ لا یکلفنا ما لیس فی و سعنا وما تعذر وجودہ علی الکل فلم یکلفنا اللّٰہ إیاہ قط قال اللّٰہ تعالیٰ ﴿ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نفسا اِلَّا وُ سعَھَا لَھَا﴾ وقال تعالیٰ ﴿وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ﴾ وبالضرورۃ ندری أن تکلیف إصابۃ ما لا سبیل إلی وجودہ حرج۔‘‘[2]
’’شریعت کے تمام احکامات عام علماء کے لیے موجود ہیں ‘ اگرچہ شریعت کے بعض احکامات کے وجود کا علم بعض لوگوں کے لیے مشکل ہوتا ہے لیکن یہ بات محال اور ناممکن ہے کہ شرعی احکام کے وجود کا علم تمام لوگوں کے لیے مشکل اور ناممکن الحصول ہو‘کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیں صرف ا سی چیز کا مکلف بناتے ہیں کہ جس کی ہم طاقت رکھتے ہیں اور جس شرعی حکم کے وجود کا علم تمام لوگوں کے لیے ناممکن الحصول ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس کا ہمیں کبھی بھی مکلف نہیں بنایا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : اللہ تعالیٰ ا سی چیز کا انسان کو مکلف بناتے ہیں کہ جس کی وہ طاقت رکھتا ہے۔ا سی طرح ارشاد بار ی تعالیٰ ہے: اس نے تمہارے لیے دین کے معاملے میں کوئی تنگی نہیں رکھی ہے اور یہ بات ہم بدیہی طور پر جانتے ہیں کہ جس حکم کو معلوم کرنے کی کوئی صورت نہ ہو تو اس کامکلف بنانا تنگی ہے ۔ ‘‘
[1] الإحکام فی أصول الأحکام:۸؍ ۵۸۷
[2] أیضاً