کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 13
غالب ظنہ وعلم التوحید وما جری مجراہ مما للّٰہ علیہ دلائل قائمۃ کلفنا بھا إصابۃ الحقیقۃ لظھور دلائلہ و وضوح آیاتہ۔‘‘[1] ’’اجتہاد سے مراد اپنی کوششیں کسی ایسے کام میں خرچ کرنا کہ جس کا مجتہد قصد کرتا ہے یا جس کو وہ تلاش کرتا ہے۔عرف میں اجتہاد کا لفظ ان مسائل میں اپنی کوشش خرچ کرنے کے ساتھ مخصوص ہیں کہ جن میں اللہ کی طرف سے کوئی ایسی دلیل موجود نہ ہو جو ان مسائل میں اللہ کے مطلوب کے علم تک پہنچانے والی ہو۔جن مسائل میں اللہ کی طرف سے کوئی دلیل موجود ہو تو ان مسائل کی دلیل کی تلاش کو اجتہاد نہیں کہتے۔جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی بھی عالم یہ نہیں کہتا کہ توحید اور ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کاعلم بھی اجتہاد ہے(حالانکہ دونوں کے دلائل معلوم کرنے کے لیے انسان کوشش ضرور کرتا ہے)۔ا سی طرح شریعت کے جن مسائل میں کوئی دلیل موجود ہو تو یہ مسائل اجتہاد کے باب میں داخل نہ ہوں گے کیونکہ اہل علم کے عرف و عادت میں اجتہاد کا لفظ اس ظن غالب اور اجتہادی نتیجے کے حصول کا نام ہے جس کا اس کو مکلف بنایا گیا ہے‘ اور اس سے مراد بعینہ مطلوب کا حاصل کرنا نہیں ہے۔ پس جب کسی مجتہد نے اجتہادکیا تو جو اس کی ذمہ داری تھی اس نے اس کو ادا کر دیا اور وہ یہ ہے کہ اس کا ظن غالب اس کو جس چیز کی طرف لے جائے( اس کو شرعی حکم کے طور پرقبول کر لے)۔توحید اور اس طرح کے دو سرے مسائل کا علم ان چیزوں میں داخل ہے کہ جن میں اللہ کی طرف سے دلائل موجود ہیں اور ہم ان دلائل کی صراحت اور واضح آیات کی وجہ سے اس چیز کے مکلف ہیں کہ ان مسائل میں اصل حقیقت تک پہنچیں ۔‘‘ آگے چل کر اجتہاد کی مختلف اقسام پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کے تصور کی وضاحت میں لکھتے ہیں : ’’وا سم الاجتھاد فی الشرع ینتظم ثلاثۃ معان: أحدھا: القیاس الشرعی عن علۃ مستنبطۃ أو منصوص علیھا فیرد بھا الفرع إلی أصلہ وتحکم لہ بحکمہ بالمعنی الجامع بینھما۔۔۔والضرب الآخر من الاجتھاد ھو ما یغلب فی الظن من غیر علۃ یجب بھا قیاس الفرع علی الأصل کالاجتھاد فی تحری جھۃ الکعبۃ لمن کان غائبا علیھا وکتقویم المستھلکات وجزاء الصید والحکم بمھر المثل ونفقۃ المرأۃ والمتعۃ ونحوھا فھذا الضرب من الاجتھاد کلفنا فیہ الحکم بما یؤدی إلی غالب الظن من غیر علۃ یق اس بھا فرع علی أصلہ والضرب الثالث الا ستدلال بالأصول علی ما سنذکرہ بعد فراغنا من ذکر وجوہ القیا س۔‘‘[2] ’’اجتہاد کا لفظ شریعت میں تین معانی میں استعمال ہوتا ہے‘ ان میں سے ایک وہ قیاس شرعی ہے جو کسی منصوص یا مستنبط علت کی بنیاد پر ہو اور پھر اس علت کی وجہ سے اصل کے حکم کو فرع کی طرف لوٹا دیا جائے پس علت مشترکہ کی وجہ سے فرع کے لیے بھی اصل کا حکم جاری کر دیا جائے گا ۔۔۔اور اجتہاد کی دو سری قسم وہ ہے کہ جس میں کسی مسئلے کے بارے میں کسی علت کی وجہ سے فرع کو اصل کے مشابہ قرار دینے کی بجائے ظن غالب کی بنیاد پر کوئی حکم حاصل ہوجیسا کہ کعبہ کی جہت کو تلاش کرنے میں اس شخص کا اجتہاد ہے کہ جس کے سامنے کعبہ موجود نہ ہو‘ ضائع شدہ چیزوں کے ضمان میں اجتہاد ‘ حالت احرام میں شکار کرنے والے کے کفارے کے تعین میں اجتہاد‘ مہر مثل‘ عورت کا نان نفقہ اور عورت سے ا ستمتاع وغیرہ میں اجتہاد کرنا بھی ا سی قسم میں شامل ہے۔اجتہاد کی اس قسم میں ہم اس بات کے مکلف ہیں کہ کسی علت کے ذریعے فرع کو اصل پر قیاس کرنے کے علاوہ کسی اور طریقے سے کسی ایسے حکم کو معلوم کریں جس میں ظن غالب حاصل ہو۔اجتہاد کی تیسری قسم أصول(ا ستحسان)سے ا ستدلال کر نا ہے جس کا ذکر ہم قیاس کے مختلف طریقوں سے فارغ ہونے کے بعد کریں گے۔‘‘ امام شافعی رحمہ اللہ،امام ابوبکر جصاص رحمہ اللہ کی بیان کردہ اجتہادکی پہلی اور دو سری قسم دونوں کوبیک وقت اجتہاد اور قیاس کا نام دیتے ہیں لیکن اجتہاد کی تیسری قسم کاشدت سے انکار کرتے ہیں ۔امام شافعی رحمہ اللہ نے اگرچہ استحسان کے علاوہ بعض دو سرے قواعد عامہ مثلاً سد
[1] الفصول فی الأصول:۴؍ ۱۱ [2] أیضاً: ۴؍ ۱۱۔۱۲