کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 12
نے( ان احادیث میں) قیاس کیسے کیا ہے؟ایسے قائل کو ہم اللہ کے حکم سے یہ جواب دیں گے:اللہ اور اس کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کاہر وہ حکم کہ جس کے بارے میں ا سی حکم یا اللہ یا اس کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اور حکم میں کوئی ایسی علامت پائی جائے جو یہ واضح کر رہی ہوکہ مقصود اس حکم کے مدلولات میں سے کسی ایک مدلول کو بیان کرنا ہے، پس خارج میں کوئی ایسا واقعہ پیش آ جاتا ہے کہ جس کا حکم نص میں واضح طور پر موجود نہ ہوتو اس نئے پیش آمدہ واقعے میں اس واقعے کا حکم جاری کر دیا جائے گا کہ جس کا حکم نص میں واضح کر دیا گیا ہے بشرطیکہ کہ یہ نیا واقعہ ‘ نص کے واقعے کی قبیل سے ہو۔قیاس کے کئی ایک طریقے ہیں ‘قیاس کا نام ان سب کو شامل ہے۔۔۔ ان میں سے بعض طریقے بعض کی نسبت زیادہ واضح ہیں ۔ سب سے زیادہ قوی قیاس وہ ہے کہ جس چیز کے قلیل کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں یا اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام ٹھہرایا ہو تو اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جس کا قلیل حرام ہے اس کا کثیر بھی حرمت میں قلیل کی طرح ہوگایا اس سے بھی زیادہ حرام ہو گا کیونکہ کثرت کو قلت پر فضیلت حاصل ہے۔‘‘
امام شافعی رحمہ اللہ نے مذکورہ بالا عبارت میں کسی شیء کی قلیل مقدار کی شرعی حرمت کی بناء پر اس کی کثیر مقدار کو بھی حرام قرار دیا ہے اور اس طریق ِ ا ستدلال کو قیاس کا نام دیا ہے جبکہ دو سرے فقہاء اس کو ’دلالت أولی‘ یا ’مفہوم موافق‘ یا ’فحوی خطاب‘ بھی کہتے ہیں ۔ کچھ آگے جا کر مزید فرماتے ہیں:
’’وقد یمتنع بعض أھل العلم من أن ی سمی ھذا قیا سا ویقول: ھذا معنی ما أحل اللّٰہ وحرم وحمد وذم لأنہ داخل فی جملتہ فھو بعینہ ولا قیاس علی غیرہ ۔۔۔فإن قال قائل: فاذکر من وجوہ القیاس ما یدل علی اختلافہ فی البیان والأ سباب والحجۃ فیہ سوی ھذا الأول الذی تدرک العامۃ علمہ؟۔‘‘[1]
’’بعض اہل علم نے اس طریقے کو قیاس کا نام نہیں دیا ہے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ صورت تو بالکل ایسے ہے جی سے اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کوحلال یا حرام قرار دیا ہو یا کسی چیز کی تعریف یا مذمت کی ہو اور یہ(بطریق أولی نکالا جانے والا حکم)بھی من جملہ اس نص میں شامل ہے پس یہ نیاحکم بھی نص ہی ہے اور کسی دو سری چیز پر قیاس نہیں ہے۔۔۔ پس اگر قائل یہ کہتا ہے :کہ آپ اول صورت کے علاوہ قیاس کی دیگر ایسی صورتیں بھی بیان کر دیں جن میں طرز بیان‘ اسباب اور حجت کا اختلاف پایا جاتا ہو اور عامۃ الناس کے فہم میں بھی آ سکتا ہو۔‘‘
اس کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ نے قیاس کی بہت سی صورتیں فقہی مسائل کی روشنی میں بیان کی ہیں ۔ اس بحث کا خلاصہ کلام یہی ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک اجتہاد کے معنی میں وہی و سعت پائی جاتی ہے جو جمہور کے نزدیک ہے اور یہ سمجھنا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اجتہاد کی تعریف قیاس کے ذریعے کرتے ہوئے اس کی تعریف کو محدود کر دیا ہے ‘ صحیح نہیں ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ نے اجتہاد کی تعریف قیاس سے کی ہے اور قیاس کے طریقوں میں امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک بہت تو سع موجود ہے‘ امام صاحب کے نزدیک قیاس سے مراد علامات کے ذریعے کسی مطلوب تک ر سائی حاصل کرنا ہے۔واللّٰہ أعلم باالصواب
اجتہاد کی دو سری تعریف
امام أبوبکر احمد بن علی الرازی الجصاص رحمہ اللہ متوفی ۳۷۰ھ لکھتے ہیں :
’’فھو بذل المجھود فیما یقصدہ المجتھد ویتحراہ إلا أنہ قد اختص فی العرف بأحکام الحوادث التی لیس للّٰہ تعالیٰ علیھا دلیل قائم یوصل إلی العلم بالمطلوب منھا لأن ما کان للّٰہ عز وجل علیہ دلیل قائم لا ی سمی الا ستدلال فی طلبہ اجتھادا ألا تری أن أحدا لا یقول إن علم التوحید وتصدیق الر سول من باب الاجتھاد وکذلک ما کان للّٰہ علیہ دلیل قائم من أحکام الشرع لا یقال إنہ من باب الاجتھاد لأن الاجتھاد ا سم قد اختص فی العرف وفی عادۃ أھل العلم بما کلف الانسان فیہ غالب ظنہ ومبلغ اجتھادہ دون إصابۃ المطلوب بعینہ فإذا اجتھد المجتھد فقد أدی ما کلف وھو ما أداہ إلیہ
[1] الرسالۃ:ص۵۱۵۔۵۱۷