کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 11
کو بھی قیاس کہتے ہیں جو جمہور کے نزدیک قیاس کے معروف تصور میں داخل نہیں ہیں ‘ لہذاہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ا ستدلال کے جن طریقوں کو بعض علماء اجتہاد کا نام دیتے ہیں وہ امام صاحب کے نزدیک قیاس ہیں اور قیاس کو امام شافعی رحمہ اللہ اجتہاد بھی کہتے ہیں ۔ پس اجتہاد کی تعریف میں جمہور اور امام صاحب کا اختلاف لفظی ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ نے جس قیاس کو اجتہاد کہا ہے وہ جمہور کا تصور قیاس نہیں ہے بلکہ وہ امام شافعی رحمہ اللہ کا اپنا تصور قیاس ہے‘ جو اپنے مناہج و أ سالیب کے اعتبار سے جمہور کے تصور قیاس کے بالمقابل بہت و سعت کا حامل ہے۔ پس امام شافعی رحمہ اللہ جب اجتہاد کو قیاس کہتے ہیں تو قیاس سے ان کی مراد ا ستدلال کے وہ جمیع طریقے ہیں جنہیں جمہور اجتہاد کی تعریف میں شامل کرتے ہیں ۔ مثلاً امام صاحب کسی شخص(جو خانہ کعبہ کے سامنے موجود نہ ہو)کی قبلے کے تعین میں جدوجہد کو قیاس کانام دیتے ہیں جبکہ جمہور علماء اس کو اجتہاد کہتے ہیں ۔امام صاحب کا کہنا یہ ہے کہ ایک شخص قبلے کی تعیین کے لیے کائنات میں بکھری ہوئی علامات مثلاً آ سمان‘ ستاروں ‘ سورج‘ چاند‘ دریا اور پہاڑوں وغیرہ سے قبلے کا تعین کرے گا اور علامات کے ذریعے کسی چیز کو معلوم کرنا ہی قیاس ہے اور قیا س‘ اجتہاد ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’فقال أما الکتاب و السنۃ فیدلان علی ذلک لأنہ إذا أمر النبی صلي اللّٰه عليه وسلم بالاجتھاد فالاجتھاد أبدا لا یکون إلا علی طلب شیء وطلب شیء لایکون إلا بدلائل والدلائل ھی القیاس ‘ قال : فأین القیاس مع الدلائل علی ما وصفت؟ قلت: ألا تری أن أھل العلم إذا أصاب رجل لرجل عبدا لم یقولوا لرجل: أقم عبدا ولا أمۃ إلا وھو خابر بال سوق لیقیم بمعنیین: بما یخبرکم ثمن مثلہ فی یومہ ولا یکون ذلک إلا بأن یعتبر علیہ بغیرہ فیقی سہ علیہ ولا یقال لصاحب سلعۃ: أقم إلا وھو خابر۔‘‘[1] ’’قائل نے کہا:کتاب و سنت آپ کے مذکورہ بالا بیان کی تصدیق کرتی ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد کرنے کا حکم دیا ہے اور اجتہاد ہمیشہ کسی شیء(حکم)کو طلب( معلوم)کرنے کے لیے ہو گا اور کسی شیء( حکم)کا علم دلائل(علامات)کے ذریعے ہی سے ہو گا اور علامات(کے ذریعے کسی حکم کو معلوم کرنا)ہی قیاس ہے۔قائل نے کہا: علامات کے ذریعے قیاس کہاں ہو گا جیسا کہ آپ نے بیان کیاہے۔میں نے کہا:کیا تجھے معلوم نہیں کہ جب کوئی شخص کسی دو سر ے شخص کے غلام کو کوئی نقصان پہنچائے(اور اس کو ضمان اد ا کرنا پڑے)تو علماء ان دونوں میں کسی شخص کوبھی یہ نہیں کہتے: تو اس غلام یا لونڈی کی قیمت لگا سوائے اس کے کہ وہ بازار(کی قیمتوں ) سے باخبر ہو‘ وہ تمہیں اس دن میں اس غلام کی مثل کی قیمت کی خبر دیتے وقت دونوں(جوغلام ضائع ہو گیا اور جو اس کی مثل تلاش کیا جا رہاہے)کی صفات پر مطلع ہو(تاکہ ضائع شدہ غلام کی صحیح مثل تک رہنمائی کر سکے)۔اور یہ اس وقت ممکن نہ ہو گاجب تک کہ وہ ا س( ضائع شدہ غلام)کو کسی دو سرے(غلام)پر جانچ پرکھ نہ لے اور اس کو کسی دو سرے پر قیاس نہ کر لے۔ کسی مال کے مالک کو اس وقت ہی اس مال کی قیمت بیان کرنے کو کہا جاتا ہے جبکہ وہ اس سے باخبر ہو۔‘‘ آگے چل کر اس مسئلے کو مزید نکھارتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں : ’’فإن قال قائل : فاذکر من الأخبار التی تقیس علیھا وکیف تقی س؟ قیل لہ إن شاء اللّٰہ : کل حکم للّٰہ أو لر سولہ وجدت علیہ دلالۃ فیہ أو فی غیرہ من أحکام اللّٰہ أو ر سولہ بأنہ حکم بہ لمعنی من المعانی فنزلت نازلۃ لیس فیھا نص حکم: حکم فیھا حکم النازلۃ المحکوم فیھا إذا کانت فی معناھا۔والقیاس وجوہ یجمعھا القیا س۔۔۔وبعضھما أوضح من بعض فأقوی القیاس أن یحرم اللّٰہ فی کتابہ أو یحرم ر سول اللّٰہ القلیل من الشیء فیعلم أن قلیلہ إذا حرم کان کثیرہ مثل قلیلہ فی التحریم أو أکثر بفضل الکثرۃ علی القلۃ۔‘‘[2] ’’ اگر کوئی قائل یہ کہے:آپ مثال کے طور پر بعض ایسی احادیث بیان کریں جن میں آپ نے قیاس کیا ہو اور یہ بھی بتلائیں کہ آپ
[1] الرسالۃ:ص۱۰۵۔۱۰۶ [2] أیضاً:ص۵۱۲۔۵۱۳