کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 10
’’بعض فقہاء کا کہنا ہے قیاس ہی اجتہادہے اور یہ کہنا خطا ہے کیونکہ اجتہاد‘ قیاس کی نسبت عام ہے ۔بعض اوقات یہ الفاظ کے عمومات‘ گہرائیوں اور قیاس کے علاوہ دلالت کے تمام طریقوں میں غور و فکر کے ذریعے ہوتا ہے۔علماء کے عرف میں قیاس سے مراد کسی حکم کی تلاش میں مجتہد کی بھرپور کوشش ہے اور اس لفظ کا اطلاق ا سی شخص پر ہوتا ہے جو کسی کام میں اپنی جان کھپا دے اورتمام توانائیاں لگا دے۔ پس جس نے رائی کا دانہ اٹھایا ہو تو اس کے لیے ’اجتہاد‘ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا۔اور اس سے مراد خالص قیاس نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ جدوجہدہے جو قیاس کرتے وقت کی جاتی ہے۔‘‘
امام زرکشی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’وقد قال الشافعی رحمہ اللّٰہ فی ’’الر سالۃ‘ إن القیاس الاجتھاد‘ وظاہر ذالک لا یستقیم‘ فإن الاجتھاد أعم من القیاس ‘ والقیاس أخص۔۔۔و الذی علیہ جمہور الفقہاء أن الاجتھاد غیر القیا س‘ وھو أعم منہ ؛ لأن القیاس یفتقر إلی الاجتھاد وھو من مقدماتہ‘ ولیس الاجتھاد یفتقر إلی القیا س‘ ولأن الاجتھاد یکون بالنظر فی العمومات و سائر طرق الأدلۃ‘ ولیس ذلک بقیا س۔‘‘[1]
’’امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’ الر سالۃ‘ میں کہا ہے: قیاس ہی اجتہادہے‘ بظاہر یہ قول در ست نہیں ہے کیونکہ اجتہاد‘ قیاس کی نسبت عام ہے اور قیاس خاص ہے۔۔۔(ابن سمعانی رحمہ اللہ نے کہا ہے)جمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ اجتہاد اور قیاس میں فرق ہے‘ اجتہاد عام ہے کیونکہ قیا س‘ اجتہاد کا محتاج ہے اور وہ اس کا ایک مقدمہ ہے جبکہ اجتہاد ‘ قیاس کا محتاج نہیں ہے کیونکہ بعض اوقات اجتہاد الفاظ کے عموم اور دلالت کے مختلف طریقوں میں غور وفکر کی صورت میں ہوتا ہے اور اجتہاد کی یہ صورت‘ قیاس بالکل بھی نہیں ہے۔‘‘
امام شافعی رحمہ اللہ کی اس تعریف پر وارد ہونے والے اس اعتراض کے کئی ایک جوابات دیے گئے ہیں ۔امام زرکشی رحمہ اللہ ‘ امام شافعی رحمہ اللہ کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’الاجتھاد فی عرف الفقہاء مستعملا فی تعریف ما لانص فیہ من الحکم‘ وعندہ أن طریق تعرف ذلک لا یکون إلا بأن یحمل الفرع علی الأصل فقط‘ وذلک قیاس عندہ۔‘‘[2]
’’علماء کے عرف میں اجتہاد سے مراد اس چیز کا حکم معلوم کرنا ہے جس کے بارے میں کوئی صریح نص نہیں ہے جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں اس قسم کے مسائل کا حکم صرف ا سی صورت معلوم ہو گا جبکہ فرع کو اصل پر محمول کیا جائے گا اور یہی امام صاحب کے نزدیک قیاس بھی ہے‘‘۔
ڈاکٹرعمر سلیمان أشقر حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’وقد یعتذر للشافعي بأنہ أراد المبالغۃ لأن القیاس أھم مباحث الاجتھاد فیکون کقولہ ’’الحج العرفۃ‘‘۔‘‘[3]
’’امام شافعی رحمہ اللہ کے اس بیان کے بارے میں یہ عذر پیش کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے(قیاس کو اجتہاد کہہ کر)مبالغے کا ارادہ کیا ہے کیونکہ اجتہاد کے مباحث میں سے اہم ترین بحث قیاس کی ہے۔ ا س(ا سلوب کلام)کی مثال اللہ کے ر سول کی وہ حدیث ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات کے قیام کو’ حج ‘کہا ہے۔‘‘
ہمارے نزدیک امام شافعی رحمہ اللہ کے طرف سے اس قسم کے عذر پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ امام صاحب کی عبارات اس مسئلے میں بالکل واضح ہے کہ وہ قیاس اور اجتہادمیں فرق کسی مبالغے کی وجہ سے نہیں کرتے بلکہ وہ حقیقت میں ان دونوں کو ایک ہی چیز شمار کرتے ہیں ۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک قیاس کی تعریف میں و سعت ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ ا ستدلال کے بہت سے ایسے طریقوں
[1] البحر المحیط: ۴؍ ۹
[2] أیضاً
[3] القیاس بین مؤیدیہ ومعارضیہ:ص۲۰