کتاب: ارمغان مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی - صفحہ 26
(۹۱)برس کی طویل عمر پا کر وفات پا گئے۔ إنا اللّٰه و إنا إلیہ راجعون۔ وہ علامہ اقبال کے اس شعر کی سچی تعبیر تھے: ؎ یقین محکم عملِ پیہم محبتِ فاتح عالم جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں مورخِ اہلِ حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ادارہ ’’تفہیم الاسلام‘‘ کی مجلسِ ادارت کے رکن تھے۔ ہم خود تو ان سے فون اور خط کتابت کے ذریعے سے رابطہ رکھتے تھے، بسا اوقات وہ خود بھی شفقت فرماتے۔ فون کرتے یا پھر خط لکھ کر کوئی مشورہ دیتے۔ اسی طرح مجلہ ’’تفہیم الاسلام‘‘ کے لیے اپنے بھی اور دیگر اہلِ قلم کے مضامین اشاعت کے لیے بھجواتے۔ ادارہ تفہیم الاسلام سے محبت اور جذبۂ اخلاص رکھنے والے بہت سے احباب و اصحابِ علم جانتے ہیں کہ حضرت بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ یادگار اشاعت ان کی زندگی ہی میں ترتیب دی جا رہی تھی، جس کا اعلان دسمبر ۲۰۱۵ء کے شمارے میں شائع کیا گیا تھا۔ وفات سے تقریباً ایک ہفتہ قبل مولانا مرحوم نے خود فون کرکے خصوصی نمبر کے متعلق دریافت کیا تھا۔ پھر انھوں نے اس سلسلے کی تفصیل کے لیے مجھے ایک الگ سے خط لکھنے کو کہا۔ میں نے ۱۹؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کو ان کے نام ایک طویل خط لکھا تھا۔ دو سو صفحات کا خصوصی شمارہ مرتب ہو گیا تھا، جسے جنوری، فروری ۲۰۱۶ء کے شمارے کے طور پر شائع کرنا تھا کہ اچانک ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کو ان کے حادثۂ وفات کی خبر موصول ہوئی۔ یہ ہمارے ادارے کے لیے ہی نہیں ، بلکہ پوری جماعت کے لیے کسی عظیم صدمے سے کم نہ تھا۔ چنانچہ ۲۵ دسمبر ۲۰۱۵ء بروز جمعۃ المبارک کو دفتر مجلہ ’’تفہیم الاسلام‘‘(توحید منزل، احمد پور شرقیہ)میں مجلّے کے مدیر مسؤل مکرم مولانا ابو طلحہ ضیاء حفیظ اللہ خان عزیز حفظہ اللہ کی زیر صدارت ادارے کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں اراکینِ ادارہ کی مشاورت سے یہ فیصلہ ہوا کہ حضرت بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی یاد اور ان کی طویل علمی خدمات کے اعتراف میں نہایت شان و شوکت سے ایک ضخیم خصوصی نمبر کتابی صورت میں منظرِ عام پر لایا جائے۔ چنانچہ اس کے لیے کوششیں شروع کر دی گئیں ۔ اس حوالے سے سب سے پہلے ہماری خبر ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور میں چھپی اور اس کے بعد سوشل میڈیا پر بھی یہ خبر چل نکلی۔ خبر کے عام ہونے کے بعد لوگوں میں حضرت مرحوم کی محبت و عقیدت اور بڑھ گئی۔ مولانا کے چاہنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد، پاکستان کے علاوہ ہندوستان، بنگلہ دیش، نیپال، کویت اور سعودی عرب میں موجود ہے۔ چنانچہ وہاں کے متعدد اہلِ علم، دانشور اور علمائے کرام نے مجھ سے کئی بار رابطہ کیا اور مولانا مرحوم کے متعلق اپنے قیمتی نگارشات، مضامین اور تاثرات لکھ کر بھیجے۔ میں نے ذاتی طور پر تمام معروف جماعتوں کے قائدین، اعیان و انصار، اکابر علمائے کرام، زعما، ادبا، صحافیوں اور مرحوم کے معاصرین کو فون کر کے اور بعض کو خط لکھ کر مضامین لکھنے کی تحریک شروع کی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے تھوڑے ہی دنوں بعد مضامین و مقالات کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ میں ان سب اہلِ علم و قلم حضرات کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انھوں نے میری کافی حوصلہ افزائی کی۔ ایک سو سے زائد مضامین کا ڈھیر لگ گیا۔ ایڈیٹر کی حیثیت سے الحمدللہ میں نے اپنی منصبی ذمے داری پوری کی۔ تمام مواد کو بار بار پڑھا۔ کئی بار پروف ریڈنگ کے عمل سے گزرا۔