کتاب: ارکان اسلام سے متعلق اہم فتاوے - صفحہ 62
ہے،مفسرین کا کہنا ہے کہنَّفَّاثَاتِسے مراد وہ جادو گرنیاں ہیں جو لوگوں کو ا پنے ظلم واذیت کا نشانہ بنانے کی غرض سے شیطانوں کا تقرب حاصل کرنے کے لیے گر ہیں لگاتی اور ان میں شرکیہ کلمات پڑھ کر پھونکتی ہیں۔ جادوگر کے حکم کے بارے میں اہل علم کایہ اختلاف ہے کہ اس سے توبہ کرواکے اس کی توبہ قبول کرلی جائے گی،یا جب اس کے سلسلہ میں جادو کا ثبوت مل جائے تو بغیر توبہ کروائے ہر حال میں اسے قتل کردیا جائے گا؟اور یہی دوسرا قول ہی درست ہے،کیونکہ جادوگر کا وجود اسلامی معاشرہ کے لیے ضرررساں ہے جبکہ وہ عموماً سچی توبہ نہیں کرتے،نیز اس کے باقی رہنے میں مسلمانون کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ یہ قول اختیار کرنے والوں کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین میں دوسرے خلیفہ ہیں،جن کی سنت کی اتباع کرنے کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاہے انہوں نے بغیر توبہ کروائے جادوگروں کو قتل کرنے کاحکم دیا تھا۔ نیز وہ روایت بھی ہے جسے امام ترمذی نے جندب بن عبداللہ البجلی یا جندب الخیر ازدی سے مرفوعاً اور موقوفاً روایت کیاہے: "جادوگر کی سزاتلوار سے اس کی گردن ماردینا ہے" مگر محدثین کے نزدیک صحیح بات یہی ہے کہ یہ جندب پر موقوف ہے۔ ام المومنین حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں ثابت ہے کہ انہوں نے اپنی ایک لونڈی کو قتل کرنے کا حکم دے دیا جس نے ان پر جادو کردیا تھا۔چنانچہ توبہ کروائے بغیر ہی وہ قتل کردی گئی۔ امام احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ توبہ کروائے بغیر جادو گر کو قتل کرنانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تین صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین یعنی عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ،جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ،اورحفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ثابت ہے۔