کتاب: ارکان اسلام سے متعلق اہم فتاوے - صفحہ 25
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی زندگی میں قحط کے زمانہ میں آپ سے بارش کے لیے دعا کی درخواست کرتے'اور اپنے نفع بخش امور میں آپ سے سفارش کرواتے تھے'لیکن جب آپ کی وفات ہوگئی تھی تو اس کے بعد انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کسی چیز کا سوال نہیں کیا'اور نہ ہی شفاعت وغیرہ طلب کرنے کے لیے وہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آئے'کیونکہ انھیں یہ معلوم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کیے بعد یہ چیز جائز نہیں'بلکہ یہ چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک مخصوص تھی'اب اس کے بعد قیامت کے دن ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شفاعت طلب کی جائے گی'جیساکہ صحیحین میں ثابت ہے کہ قیامت کے دن جب تمام مومن آدم علیہ السلام،نوح علیہ السلام،ابراہیم علیہ السلام،موسیٰ علیہ السلام،اور عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے تاکہ یہ ان کے لیے سفارش کریں کہ اللہ ان کا حساب وکتاب شروع کرے اور وہ جنت میں داخل ہوں'تو ان میں سے ہر شخص نفسی نفسی کہہ کر معذرت کردے گا اور دوسرے کے پاس بھیج دے گا'اور جب آخر میں یہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچیں گے تووہ معذرت کرتے ہوئے ہمارے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رہنمائی کردیں گے'یہاں تک کہ جب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں گے تو آپ اللہ کے وعدہ کے مطابق فرمائیں گے:"میں ہی اس کے لیے ہوں'میں ہی اس کے لیے ہوں۔"پھر آپ جائیں گے اور اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں گے اور کثر ت سے اس کی حمد وتعریف کریں گے'یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جائے گا:سر اٹھاؤ اور کہو بات سنی جائے گی'مانگو دیا جائے گا اور سفارش کرو قبول کی جائےگی۔ یہی حدیث شفاعت ہے اور یہی وہ مقام محمود ہے جس کا ذکر اللہ نے ذیل کی آیت