کتاب: ارکان اسلام سے متعلق اہم فتاوے - صفحہ 24
ہوئے اور فرمایا:اے اللہ! جب ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قحط کا شکار ہوتے تھے تو اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے تجھ سے بارش طلب کرتے تھے اور تو ہمیں سیراب کرتا تھا'اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے وسیلہ سے تجھ سے بارش طلب کررہے ہیں پس تو ہمیں سیراب کر'اور پھر بارش ہوتی تھی(صحیح بخاری) پھر انہوں نے عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دعا کرنے کاحکم دیا'انہوں نے دعا کی اور تمام مسلمانوں نے ان کی دعا پر آمین کہی اور اللہ نے لوگوں کو سیراب کیا۔ اس سلسلہ میں غار والوں کا قصہ بھی مشہور ہے جو صحیحین میں مروی ہے'جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم سے پہلی امتوں میں سے تین آدمیوں نے بارش کی وجہ سے رات گزارنے کے لیے ایک غار میں پناہ لی'جب وہ غار میں داخل ہوگئے تو پہاڑ سے ایک چٹان کھسک کر آئی جس سے غار کامنہ بند ہوگیا اور وہ اسے ہٹا نہ سکے'چنانچہ انہوں نے باہم یہ طے کیا کہ اس مصیبت سے نجات پانے کا صرف ایک راستہ ہے'وہ یہ کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے اپنے نیک عمل کے وسیلہ سے اللہ سے دعا فریاد کرے'چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا'ایک نے اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا وسیلہ لیا'دوسرے نے زنا پر قادر ہونے کے باوجود اپنی پاکدامنی کا اور تیسرے نے اپنی امانتداری کا وسیلہ لیا'آخر کار اللہ نے چٹان کو ہٹادی اور وہ باہر نکل آئے۔یہ قصہ اس بات کی ٹھوس دلیل ہے کہ نیک اعمال مشکلات ومصائب سے نجات اور دنیا وآخرت کی سختیوں سے عافیت کے عظیم ترین اسباب میں سے ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ کسی شخص کے جاہ ومرتبہ سے'یا اس کی ذات سے'یا اس کے حق سے وسیلہ لینا مذموم بدعت اور شرک کے وسائل میں سے ہے۔رہا مردے کو پکارنا اوراس سے فریاد کرنا تو یہ شرک اکبر ہے۔