کتاب: ارکان اسلام سے متعلق اہم فتاوے - صفحہ 23
"بے شک پرہیز گاروں کے لیے ان کے مالک کے پاس نعمت کے باغات ہیں"
اور فرمایا:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ "(الانفال۔29)
"مومنو! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو اللہ تمہارے چھٹکارے کی صورت نکال دے گا اور تمہارے گناہ تم پر سے اتار دے گا اور تم کو بخش دے گا"
اس مفہوم کی اور بھی بہت سی آیتیں وارد ہیں۔
مشروع وسیلہ کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت'آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی اتباع کے وسیلہ سے اللہ سے دعا مانگی جائے'کیونکہ یہ سب عظیم ترین نیک اعمال اور قربت الٰہی کے بہترین وسائل میں سے ہیں۔
رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاہ ومرتبہ سے'یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے'یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق سے'یادیگر انبیاء علیہ السلام اور صالحین رحمۃ اللہ علیہ کے جاہ ومرتبہ سے'یا ان کی ذات سے'یا ان کے حق سے وسیلہ لینا'تو یہ سب بدعت ہیں'شریعت میں ان کی کوئی اصل نہیں'بلکہ یہ شرک کے اسباب ووسائل میں سے ہیں'کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے ایسا نہیں کیا'جب کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ کے حق سے سب سے زیادہ واقف تھے'اگر اس میں کوئی بھلائی ہوتی تو انہوں نے ہم سے پہلے اسے کیا ہوتا 'اور ایسے ہی جب امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ایک بار قحط پڑا تو لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس جا کر آپ کا وسیلہ نہیں لیا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس دعا کی'بلکہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا کے وسیلہ سے بارش طلب کی'چنانچہ وہ منبر پر کھڑے