کتاب: ارکان اسلام سے متعلق اہم فتاوے - صفحہ 17
مذکورہ بالا دونوں حدیثوں اور اس مفہوم کی دیگر حدیثوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ یہودونصاریٰ اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا کرتے تھے،اور پھر آپ نے اپنی اُمت کو ان کی مشابہت اختیار کرکے قبروں کو سجدہ گاہ بنانے،ان کے پاس نماز پڑھنے،یا قیام کرنے،یا قرآن کی تلاوت کرنے سے منع فرمایا ہے،کیونکہ یہ سارے کام شرک کے اسباب ووسائل میں سے ہیں،اورایسے ہی قبروں پر عمارت اورقبے بنانا اور ان پر چادریں چڑھانا بھی شرک اور مردوں کے حق میں غلو کا سبب ہے،جیسا کہ یہودونصاریٰ نے نیز امت محمدیہ کے جاہل عوام نے کیا،یہاں تک کہ انہوں نے مردوں کی عبادت کی،ان کے لیے قربانی کی،ان سے فریاد کیا،ان کے لیے نذر مانی اور ان سے بیمار کے لیے شفا اور دشمنوں پر فتح وغلبہ کا سوال کیا،اور یہ ساری باتیں اس شخص سے مخفی نہیں جس نے حسین،بدوی،شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ،اور ابن عربی وغیرہ کی قبروں پر ان سب خرافات کا مشاہدہ کیا ہو،واللہ المستعان ولا حول ولا قوۃ الا باللہ۔
صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو چونا گچ کرنے،ان پر بیٹھنے اور عمارت بنانے اور ان پر لکھنے سے منع فرمایا ہے،اور یہ ممانعت صرف اس وجہ سے ہے کہ یہ سارے کام شرک اکبر کا ذریعہ ہیں۔
لہذا تمام مسلمانوں پر خواہ حکومتیں ہوں یاافراد۔واجب ہے کہ وہ شرک و بدعات سے دور رہیں اور جب انہیں دین کے کسی معاملے میں اشکال ہوجائے توان علماء سے دریافت کرلیں جو عقیدہ کی درستگی اور سلف صالحین کے نقش قدم پر چلنے میں مشہور ومعروف ہیں،تاکہ وہ علم وبصیرت کے ساتھ اللہ کی عبادت کرسکیں،جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: