کتاب: ارکان اسلام سے متعلق اہم فتاوے - صفحہ 15
کام باطل اوررسولوں کی لائی ہوئی توحید واخلاص کی دعوت کے منافی ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ۖ"(سورۃ النحل:36) "اور ہم تو ہر قوم میں ایک پیغمبر(یہ حکم دے کر)بھیج چکے ہیں کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت سے بچے رہو" اور فرمایا: "وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ"(الانبیاء۔25) "اور ہم نے آپ سے پہلے جو بھی پیغمبر بھیجے اس پر یہی وحی کرتے رہے کہ میرے سوا کوئی سچا معبود نہیں،تو میری ہی بندگی کرتے رہو۔" نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال تک مکہ مکرمہ میں لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے،انہیں شرک سے ڈراتے اور کلمہ لا الٰہ الا اللہ کا مفہوم واضح کرتے رہے،تو کچھ لوگوں نے آپ کی دعوت قبول کی اور اکثر نے غروروتکبر میں آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع وفرمانبرداری کرنے سے انکار کردیا،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور وہاں انصار اور مہاجرین کے درمیان اللہ،کی دعوت کو پھیلایا،اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور امراء اور بادشاہوں کے پاس خطوط لکھ کر ان کے سامنے اپنی دعوت اورلائی ہوئی شریعت کوواضح کیا،اور اس راہ میں پیش آنے والی تمام مصیبتوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے صبر کیا،یہاں تک کہ اللہ کا دین غالب ہوا اور لوگ اللہ کےدین میں جوق در جوق داخل ہوئے،توحید کا بول بالا ہوا اور مکہ ومدینہ اور سارے جزیرہ