کتاب: ارکان ایمان ایک تعارف - صفحہ 98
2 انسان پر لازم ہے کہ وہ تقدیر میں لکھی ہوئی چیز پر جزع وفزع نہ کرے بلکہ صبر کا مظاہرہ کرے۔ اور وہ اس بات پر یقین کر لے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ، جس پر اسے راضی ہی رہنا چاہییٔ اور اسے تسلیم کرنا چاہییٔ۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ((عَجَبًالِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ،إِنَّ أَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ،وَلَیْسَ ذٰلِکَ لِأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ:إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّائُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًالَّہٗ ، وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّائُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہٗ )) [1] ’’ مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے ، اور اس کا ہر معاملہ یقینا اس کیلئے خیر کا باعث ہوتا ہے ، اور یہ خوبی سوائے مومن کے اور کسی کو نصیب نہیں ہوتی ، اگر اسے کوئی خوشی پہنچے تو وہ شکر ادا کرتا ہے ، تو وہ اس کیلئے خیروبرکت کا باعث بن جاتی ہے ، اور اگر اسے کوئی غمی پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے ، اور یوں وہ بھی اس کیلئے باعثِ خیرواجر بن جاتی ہے ۔‘‘ اور اسے اس بات پر بھی یقین ہونا چاہئیے کہ جو چیز اس کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے وہ اس سے چوکنے والی نہیں ، بلکہ اسے مل کر رہے گی ، اور جو چیز اللہ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں نہیں لکھی ، وہ اسے ملنے والی نہیں ، چاہے وہ جتنی محنت کر لے اور چاہے جتنے جتن کر لے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((وَاعْلَمْ أَنَّ مَا أَخْطَأَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیْبَکَ ، وَمَا أَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ )) [2] ’’اور اس بات کا بھی اچھی طرح سے یقین کر لو کہ جو چیز اللہ تعالیٰ تجھ سے روک لے وہ تجھے ہرگز نہیں مل سکتی ، اور جو چیزاللہ تعالیٰ تجھے عطا کرنا چاہے اسے کوئی
[1] مسلم : ۲۹۹۹ [2] احمد ، ترمذی ۔ صحیح الجامع للألبانی : ۷۹۵۷