کتاب: ارکان ایمان ایک تعارف - صفحہ 96
(۱) ایک نظریہ تو یہ ہے کہ بندوں کے افعال بندوں کی مخلوق ہیں ، اور بندے ان کے خالق ہیں ، اور ان میں اللہ تعالیٰ کا کوئی دخل نہیں ہے ، یہ نظریہ قدریہ کا ہے جو تقدیر کا انکار کرتے ہیں۔ (۲) اس کے بالمقابل دوسرا نظریہ یہ ہے کہ انسان مجبور ِمحض ہے ، اور اس کی حیثیت ہوا کے دوش پر اڑتے ہوئے تنکے کی ہے کہ ہوا اسے جس طرف چاہے اڑا لے جائے ، اور اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی تقدیر پہلے سے لکھ کر اسے مجبورِ محض بنا دیا ہے ۔۔۔۔۔ اور یہ دونوں نظریات باطل ہیں۔ (۳) علماء سلف رحمۃ اللہ علیہم نے ان دونوں کے درمیان ایک تیسرا موقف اپنایا ہے جو کہ مبنی برحق ہے ، اور وہ یہ ہے کہ انسان نہ تو مکمل طور پر مختار ِکل ہے اور نہ ہی پورے طور پر مجبور ِمحض ہے ، بایں معنیٰ کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن میں انسان مجبور ِمحض ہے ، مثلاً انسان کی موت وحیات ، اس کے رنگ کا گورا ہونا یا کالا ہونا ، اس کا خوبصورت ہونا یابدصورت ہونا،اس کا کامل الخلقت ہونایا عجیبُ الخلقت و معذور ہونا ، یہ ایسی چیزیں ہیں جن میں اس کا کوئی بس نہیں چل سکتا ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اسے اختیار اور ارادہ بھی عطا کیا ہے ، اور اسے متعدد صلاحیتوں سے نوازا ہے ، جن کی بناء پر وہ اچھے اور برے میں تمیز کر سکتا ہے ، اور اسی اختیار اور اس کی صلاحیتوں کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے اسے مکلف بنایا ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { وَہَدَیْنَاہُ النَّجْدَیْنِ } (سورۃ البلد : ۱۰) ’’ اور ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دئیے ۔‘‘ یعنی خیر وشرّکے ، ایما ن و کفر کے اور سعادتمندی و بدبختی کے دونوں راستے ہم نے اسے دکھا دئیے ہیں ، اور معاملہ اس پر چھوڑ دیا ہے ، ہاں اللہ تعالیٰ کو اس بات کا سابق وازلی علم حاصل ہے کہ وہ کونسی راہ اختیار کرے گا؟ لیکن اس علم کو انسان کے اچھی یا بری راہ کے اپنانے میں کوئی دخل نہیں ، انسان اگر کوئی راہ اپناتا ہے تو اپنے اختیار سے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: { لِمَنْ شَآئَ مِنْکُمْ أَنْ یَّسْتَقِیْمَ } (سورۃ التکویر : ۲۸) ’’ یہ ( نصیحت ہے ) اس شخص کیلئے جو تم میں سے سیدھی راہ پر چلنا چاہے ۔‘‘