کتاب: ارکان ایمان ایک تعارف - صفحہ 86
گالیاں دیتا ہوں اور مارتا بھی ہوں ، تو ان کے متعلق میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( یُحْسَبُ مَا خَانُوْکَ وَعَصَوْکَ وَکَذَّبُوْکَ ، وَعِقَابُکَ إِیَّاہُمْ ، فَإِنْ کَا نَ عِقَابُکَ إِیَّاہُمْ بِقَدْرِ ذُنُوْبِہِمْ کَانَ کَفَافًا ، لَا لَکَ وَلَا عَلَیْکَ ، وَإِنْ کَا نَ عِقَابُکَ دُوْنَ ذُنُوْبِہِمْ کَانَ فُضْلاً لَکَ ، وَإِنْ کَانَ عِقَابُکَ فَوْقَ ذُنُوْبِہِمْ اُقْتُصَّ لَہُمْ مِنْکَ الْفَضَل )) ’’ ان کی خیانت ونافرمانی، تجھے انھوں نے جو جھٹلایا ، اور جتنی تو نے انھیں سزا دی ، اس سب کا حساب کیا جائے گا ، اگر تیری سزا ان کی غلطیوں کے بقدر ہوئی تو معاملہ برابر ہو جائے گا ،نہ اس سے تمہیں کوئی فائدہ ہو گا اورنہ نقصان ، اور اگر تیری سزا ان کی غلطیوں کے مقابلے میں کم ہوئی تو تجھے ان پر فضیلت حاصل ہو گی ، اور اگر تیری سزا ان کی غلطیوں سے زیادہ نکلی تو تجھ سے زیادتی کابدلہ لیا جائے گا ۔‘‘ یہ شخص ایک طرف ہو کر رونے لگا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ کیا تو نے کتاب اللہ میں یہ آیت نہیں پڑھی؟ : { وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا} (سورۃ الأنبیاء : ۴۷ ) ’’ قیامت کے دن ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھیں گے ، پھر کسی پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا ۔‘‘ اس شخص نے کہا :’’ اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے خیال میں میرے لییٔ اور ان کیلئے یہی بہتر ہے کہ میں انھیں چھوڑ دوں ، اورمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ آج کے بعد یہ سب آزاد ہیں ۔‘‘ [1]
[1] ترمذی : ۳۱۶۵ ۔ وصححہ الألبانی