کتاب: ارکان ایمان ایک تعارف - صفحہ 75
گر پڑیں گے ، مگر جسے اللہ چاہے ، پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا جس سے وہ ایک دم کھڑے ہو کر دیکھنے لگ جائیں گے ۔‘‘ { إِلاَّ مَنْ شَآئَ اللّٰہُ } سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ بے ہوش ہو کر گرنے سے مستثنیٰ کرے گا ، اور وہ کون لوگ ہونگے ؟ یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے ، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ دو آدمیوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا ، ان میں سے ایک مسلمان اور دوسرا یہودی تھا ، چنانچہ مسلمان نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم و تمام جہان والوں پر فضیلت دی ، اس کے جواب میں یہودی نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے موسی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی ، یہ سن کر مسلمان غضبناک ہو گیا ، اور اس نے یہودی کے چہرے پر ایک طمانچہ دے مارا ، چنانچہ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور اس نے مسلمان کی شکایت کی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لاَ تُخَیِّرُوْنِیْ عَلٰی مُوْسٰی،فَإِنَّ النَّاسَ یَصْعَقُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ،فَأَکُوْنُ أَوَّلَ مَنْ یُّفِیْقُ،فَإِذَامُوْسٰی بَاطِشٌ بِجَانِبِ الْعَرْشِ،فَلَا أَدْرِیْ أَکَانَ مُوْسٰی فِیْمَنْ صَعِقَ فَأَفَاقَ قَبْلِیْ،أَوْ کَانَ مِمَّنِ اسْتَثْنَی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ )) [1] ’’ تم مجھے موسی علیہ السلام پر فضیلت نہ دو ، کیونکہ قیامت کے روز لوگ بے ہوش کر گر پڑیں گے ، چنانچہ میں سب سے پہلا شخص ہو نگا جسے ہوش آئے گا ، اور میں دیکھوں گا کہ موسی علیہ السلام عرش کی ایک جانب کو پکڑے ہوئے ہیں ۔ تو مجھے نہیں معلوم کہ وہ بھی بے ہوش ہونے والوں میں ہونگے اور مجھ سے پہلے انہیں افاقہ ہو گا ، یا انہیں اللہ تعالیٰ ان لوگوں میں شامل کرے گا جو بے ہوش کر گرنے سے مستثنیٰ ہونگے ۔‘‘
[1] بخاری : ۶۵۱۷ ، مسلم : ۲۳۷۳