کتاب: ارکان ایمان ایک تعارف - صفحہ 49
(۱) اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابیں اس لییٔ نازل فرمائیں تاکہ اس کے بندے اپنے تمام مسائل میں انہیںاپنا مرجع بنائیں ، اور ہر مسئلہ میں ان کی طرف رجوع کریں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّأَحْسَنُ تَأْوِیْلاً } (سورۃالنسآء :۵۹) ’’ پھر اگر کسی معاملہ میں تمہارا اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو ، اگر تم اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو ، اسی میں بھلائی ہے اور انجام کے اعتبار سے یہی اچھا ہے ۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ عرفات میں خطبۂ حجۃ الوداع کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تلقین فرمائی کہ وہ کتاب اللہ ( قرآن ِمجید ) کو مضبوطی سے تھام لے ، اس طرح وہ کبھی گمراہ نہیں ہوگی ، لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ ہم قرآنِ مجید کو سیکھیں ، پڑھیں ، اس پر غور وفکر کریں اور اس پر عمل بھی کریں ۔ (۲) دوسری حکمت یہ ہے کہ لوگ ان کے ذریعے فیصلے کر سکیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { کَانَ النَّاسُ أُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیِّیْنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ وَأَنْزَلَ مَعَہُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ } (سورۃ البقرۃ: ۲۱۳) ’’(در اصل )لوگ ایک ہی جماعت تھے پھر اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو خوشخبریاں دینے اور ڈرانے والے بنا کر مبعوث فرمایا اور ان کے ساتھ سچی کتابیں نازل فرمائیں تاکہ لوگوں کے ہر اختلافی امر کا فیصلہ ہوجائے۔‘‘ اس آیتِ کریمہ کی روشنی میں ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے باہمی اختلافات کا فیصلہ قرآنِ مجید کے ذریعے کریں ، اور تمام متنازعہ امور میں کتاب اللہ کی طرف رجوع کریں ، اور کتاب اللہ جو فیصلہ کردے اس کے سامنے اپنے آپ کو جھکا دیں اور اسے کھلے دل سے تسلیم کر لیں ۔