کتاب: ارکان ایمان ایک تعارف - صفحہ 30
(العظیم ) ہے ، جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہر قسم کی عظمت وبزرگی اللہ تعالیٰ کیلئے ہے ، اور کائنات کے تمام امور میں اسی کا حکم چلتا ہے ، اس لییٔ جبینِ نیاز کا جھکانا اور سجدہ ریز ہونا صرف اسی کیلئے روا ہے ، اور اس کے خلاف عمل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی بزرگ یا ولی کے سامنے اپنے آپ کو جھکایا جائے ، یا اس کی قبر پر سجدہ کیا جائے ، یا غیر اللہ کو کائنات کے امور میں تصرّف کرنے والا مانا جائے اور نبی ٔمکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ((إِنَّ لِلّٰہِ تِسْعَۃً وَّتِسْعِیْنَ اِسْمًا، مَنْ أَحْصَاہَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ، وَہُوَ وِتْرٌ یُّحِبُّ الْوِتْرَ)) [1] ’’بے شک اللہ تعالیٰ کے ننانوے(۹۹) نام ہیں، جوشخص انہیں شمار ( یا حفظ ) کرے گا جنت میں داخل ہوگا، اور وہ (اللہ تعالیٰ) طاق ہے،طاق ہی کو پسند فرماتا ہے۔‘‘ اس سے مقصود اسمائے حسنیٰ کو صرف زبانی طور پر شمار کرنا یا حفظ کرنا نہیں بلکہ اس سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان اسمائے مبارکہ کو یاد کرکے ان کے معانی کو اپنے دل میں اتارا جائے ،اور ان کے خلاف عمل نہ کیا جائے اوراللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے بارے میں جو اعتقاد ہم نے ذکر کیا ہے یہ دو بنیادوں پر قائم ہے: 1 اللہ تعالیٰ کیلئے ہی وہ اچھے نام اور بلند صفات ہیں جو کہ اس کے کامل ہونے پر دلالت کرتی ہیں، نہ اس کا کوئی ہم مثل ہے اور نہ ہی کائنات میں سے اس کا کوئی شریک ہے۔مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ’’الحیّ‘‘ (زندہ رہنے والا) ہے ، اور اسی سے اللہ تعالیٰ کی صفت ِ ’’حیات‘‘ ثابت ہوتی ہے ، لہٰذا اس کے بارے میں ضروری ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کیلئے اسی کامل طریقے پر ثابت کیا جائے جس کا وہ مستحق ہے، اور یہ زندگی ٔ کامل، ہمیشہ رہنے والی زندگی ہے کہ جس میں کمال کے تمام لوازم مثلاً علم اور قدرت وغیرہ موجود ہیں، اور یہ
[1] بخاری ومسلم