کتاب: ارکان ایمان ایک تعارف - صفحہ 101
چھڑی تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سر جھکائے ہوئے زمین پر کرید رہے تھے (جیسے کسی گہری سوچ میں ہوں ) ، پھر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
((مَا مِنْکُمْ مِّنْ أَحَدٍ ، مَا مِنْ نَّفْسٍ مَّنْفُوْسَۃٍ إِلاَّ وَقَدْ کَتَبَ اللّٰہُ مَکَانَہَا مِنَ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ ، وَإِلاَّ وَقَدْ کُتِبَتْ شَقِیَّۃً أَوْ سَعِیْدَۃً ))
’’تم میں سے جو شخص بھی پیدا ہوا ہے اس کا ٹھکانا لکھ دیا گیا ہے ، جنت میں یا دوزخ میں ، اور یہ بھی لکھا جا چکا ہے کہ وہ نیک بخت ہے یا بد بخت۔‘‘
یہ سن کر ایک شخص کہنے لگا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم اپنی قسمت کے لکھے پر بھروسہ کرتے ہوئے عمل کرنا چھوڑ نہ دیں ؟ کیونکہ جو نیک بختوں میں لکھا گیا ہے وہ بالآخر نیک بختوں میں ہی شامل ہو گا ، اور جو بد بخت لکھا گیا ہے وہ بالآخر بد بختوں میں ہی شامل ہو گا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِعْمَلُوْا! فَکُلٌّ مُیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَہٗ ، فَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ السَّعَادَۃِ فَیُیَسَّرُلِعَمَلِ أَہْلِ السَّعَادَۃِ ، وَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الشَّقَاوَۃِ فَیُیَسَّرُلِعَمَلِ أَہْلِ الشَّقَــاوَۃِ) ثُمَّ قَرَأَ : { فَأَمَّا مَنْ أَعْطیٰ وَاتَّقٰی علیہم السلام وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی علیہم السلام فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی علیہم السلام وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی علیہم السلام وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی علیہم السلام فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰی }[1]
’’تم عمل کرو، کیونکہ ہر ایک کو جس کام کیلئے پیدا کیا گیا ہے وہ اس کیلئے آسان کر دیا گیاہے ، اورجو شخص سعادتمندوں میں لکھا گیا ہے اسے نیک اعمال کی توفیق دی جاتی ہے ، اور جو شخص بدبختوں میں لکھا گیا ہے اسے ویسی ہی توفیق دی جاتی ہے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات تلاوت فرمائیں: ( جن کا ترجمہ یہ ہے) ’’پھر جس نے ( اللہ کی راہ میں مال) دیا ، اور پرہیز گاری اختیار کی ، اور اچھی
[1] بخاری : ۴۹۴۸ ، ۴۹۴۹ ، مسلم : ۲۶۴۷