کتاب: ارکان ایمان ایک تعارف - صفحہ 100
سمجھ جاتا ہے کہ بزدلی اس کی عمر میں اور بخیلی اس کے رزق میں کبھی اضافے کا باعث نہ بنے گی، ہر چیز لکھی ہوئی ہے، لہٰذا انسان کو چاہیئے کہ اسے جو مصیبت پہنچے وہ اس پر صبر کرے، اور اپنے گناہوں پر استغفار کرے، اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہوجائے ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: { مَا أَصَابَکَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّٰہِ وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰہِ یَہْدِ قَلْبَہٗ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شِیْئٍ عَلِیْمٌ } (سورۃ التغابن:۱۱) ’’کوئی مصیبت اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی، اورجو شخص اللہ پر ایمان لائے ، اللہ اس کے دل کو ہدایت دے دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘ نیز فرمایا: { فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ } (سورۂ غافر: ۵۵) ’’پس (اے نبی!) آپ صبر کیجیے ٔبے شک اللہ تعالیٰ کا وعدہ برحق ہے ، نیز آپ اپنے گناہ کی معافی مانگتے رہییٔ۔‘‘ تقدیر کو حجت بناتے ہوئے عمل کو چھوڑنا جائز نہیں جو کچھ تقدیر میں لکھا جا چکا ہے اس پر بھروسہ کرتے ہوئے عمل کو چھوڑ دینا جائز نہیں، کیونکہ کسی کے پاس کوئی علم ِیقینی تو نہیں ہے کہ وہ جنتی ہے یا جہنمی، اگراس کے پاس کچھ علم ہوتا تو ہم اسے نہ کسی کام کا حکم دیتے اور نہ کسی کام سے منع کرتے۔ اور اگر عمل کو چھوڑنا جائز ہوتا تو کبھی کسی قوم پر عذابِ الٰہی نازل نہ ہوتا ، اور نہ کسی کافر ، اور فاسق و فاجر کا مؤاخذہ ہوتا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم بقیع میں ایک جنازے میں شریک تھے ، اتنے میں نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ، چنانچہ ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد بیٹھ گئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک