کتاب: ارکان اسلام و ایمان - صفحہ 97
لیے(مسح کی مدت) تین دن رات اور مقیم کے لیے ایک دن رات مقرر فرمائی ہے۔[1]
( وضو کے بعد موزے یا جرابیں پہن لیں،اس کے بعد جب وضو کریں تو پاؤں دھونے کے بجائے ان پر مسح کر لیں۔ اگر جنبی ہوجائیں تو موزوں اور جرابوں کو اتارنا ضروری ہے۔
( مدت پوری ہونے،جنبی ہونے اور موزے اتارنے سے مسح باطل ہوجائے گا۔
اگر آدمی باوضو ہو،پھر مدت مسح ختم ہو جائے یا وہ موزے اتار دے تو اب وہ صرف پاؤں دھوے گا۔ (نئے سرے سے وضو کرنا ضروری نہیں ہے) [2]
شکستہ عضو پر باندھی جانے والی لکڑی اور پٹی پر مسح کا حکم
وہ پٹی جو کسی ٹوٹے ہوئے عضو پر باندھی جائے،اس پر مسح کرنا شرعی لحاظ سے ٹھیک ہے۔
( وضو اور غسل میں کسی شکستہ عضو کو دھونے یا مسح کرنے کے بجائے پٹی پر مسح کرنا ضروری ہے۔
( جسم پر زخم ہو یا کوئی ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو اور آدمی وضو یا غسل کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہو تو اعضا کو دھوناء ضروری ہے،خواہ گرم پانی سے یہ کام کرنا پڑے۔ اگر متاثرہ حصے کو دھونے سے
تکلیف بڑھنے کا خطرہ ہو،مثلاً بیماری یا درد زیادہ ہونے یا شفا میں تاخیر کا خطرہ ہو تو ضروری
[1] صحیح مسلم،الطھارۃ،باب التوقیت فی المسح علی الخفین،حدیث : 276
[2] فقہ السنۃ : 61,60/1 اس کی صورت درج ذیل ہے:ایک آدمی نے ظہر کے وقت وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا،عصر کے وقت مدت مسح ختم ہوگئی یا اس نے موزے اتاردیے اوراس کا وضو ابھی تک برقرار ہے تو ایسی صورت میں اپنے پاؤں دھولے،مکمل وضو کرنے کی دوبارہ ضرورت نہیں،اکثر فقہاء کا یہی موقف ہے لیکن پاؤں دھونے کی دلیل کیا ہے؟ اس کا کہیں ذکر نہیں،شیخ عثیمین رحمہ اللہ فتاوی ارکان اسلام میں فرماتے ہیں: اگرچہ فقہاء پاؤں دھونے کے قائل ہیں لیکن صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس آدمی کی طہارت برقرار ہے کیونکہ اس نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جس سے وضو ٹوٹ جائے۔ اور موزوں کا اتارنا یا مدت مسح ختم ہوجانا نواقض وضو میں سے نہیں ہے۔ یہی بات حسن بصری اور طاوس وغیرہ سے مصنف ابن أبی شیبہ: 171/1 میں منقول ہے۔ (منیب)