کتاب: ارکان اسلام و ایمان - صفحہ 55
بھی بہت بڑی غلطی اور گمراہی ہے جیسا کہ عرش پر مستوی ہونے کی استیلاء (قادر ہونا) سے تاویل کرنا،جب کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں امام مجاہد اور ابو العالیہ سے استواء کی تفسیر،ارتفاع اور بلندی نقل کی ہے۔[1] ان دونوں اماموں کا شمار سلف میں ہوتا ہے کیونکہ دونوں تابعی ہیں۔ صفات کی تاویل کرنا ان کی نفی کے مترادف ہے،چنانچہ استواء کی تاویل استیلاء سے کرنے سے قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کی ثابت شدہ صفت ’’استوی علی العرش‘‘ کی نفی ہو جاتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر بلند ہے،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ﴾ ’’رحمن عرش پر مستوی ہوا۔‘‘ [2] یعنی بلند ہوا۔ مزید فرمان الٰہی ہے: ﴿أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ أَن يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ﴾ ’’کیا تم اس ذات سے جو آسمان میں ہے بے خوف و خطر ہو گئے کہ وہ تمھیں زمین میں دھنسا دے۔‘‘[3] فِی السَّمَاء ’’آسمان میں‘‘ سے مراد عَلَی السَّمَاء ’’آسمان پر‘‘ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ اللّٰهَ كَتَبَ كِتَابًا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ الْخَلْقَ إِنَّ رَحْمَتِي سَبَقَتْ غَضَبِي فَهُوَ مَكْتُوبٌ عِنْدَهُ فَوْقَ الْعَرْشِ))
[1] صحیح البخاری : 175/8 [2] طٰہٰ 5:20 [3] الملک 16:67