کتاب: ارکان اسلام و ایمان - صفحہ 50
﴿ فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ﴾
’’سوجب یہ (مشرک) کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس سے دعا مانگتے ہیں،پھر جب (اللہ تعالیٰ) انھیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو پھر اس کے ساتھ شرک کرنے لگتے ہیں۔‘‘[1]
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انھیں مشرک قرار دیا،حالانکہ جب وہ جہاز کے ڈوبنے کا خطرہ محسوس کرتے تو اللہ ہی کو پکارتے تھے،انھیں اس لیے مشرک قرار دیا گیا ہے کہ یہ لوگ صرف اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے پر قائم نہیں رہتے تھے بلکہ جب اللہ تعالیٰ انھیں بچا کر سمندر سے نکال لاتا تو وہ اس کے سوا دوسروں سے دعائیں کرنے لگتے۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے قبل از اسلام کے مشرکین عرب کو کافر قرار دیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے قتال کرنے کا حکم دیا ہے،باوجود اس کے کہ وہ مشکل اوقات میں اپنے بتوں کو بھول کر صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے تو پھر ایسے مسلمانوں کا کیا حشر ہو گا جو محض عام حالات ہی میں نہیں بلکہ مشکل اوقات میں بھی اللہ کو چھوڑ کر اولیاء کی قبروں پر جاکر ان سے شفا،رزق اور ہدایت جیسی وہ چیزیں طلب کرتے ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور ان اولیاء کے خالق کو بھول جاتے ہیں جو یکتا ہے۔ شفا،ہدایت اور رزق جیسی چیزوں کا وہی مالک ہے۔ اور اس کے مقابلے میں یہ اولیاء کسی نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں بلکہ وہ پکارنے والوں کی پکار سننے پر بھی قادر نہیں ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ﴿١٣﴾ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ
[1] العنکبوت 65:29