کتاب: ارکان اسلام و ایمان - صفحہ 32
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا مطلب
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں،چنانچہ انھوں نے جو کچھ بتایا ہم اس کی تصدیق کریں اور ان کے حکم کی اطاعت کریں اور جس چیز سے انھوں نے منع کیا اسے ترک کر دیں اور ان کی سنت کو اپناتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔
مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کتاب النبوۃ میں فرماتے ہیں:
’’ انبیاء علیہم السلام کی ہر زمانے اور ہر جگہ پر سب سے پہلی دعوت اور سب سے بڑا مقصد یہی تھا کہ اللہ کے بارے میں لوگوں کا عقیدہ صحیح کیا جائے۔ بندے اور اس کے رب کے درمیان رابطہ صحیح بنیاد پر قائم ہو جائے اور دین کو اللہ کے لیے خالص کرنے اور صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی جائے کیونکہ اللہ ہی نفع و نقصان کا مالک،عبادت،دعا،التجا،اور قربانی کا مستحق ہے۔ ان کی ساری توجہ اپنے زمانے میں پائی جانے والی بت پرستی پر مرکوز تھی جو عام بت پرستی کے علاوہ زندہ و مردہ بزرگ ہستیوں کی عبادت کی شکل میں پائی جاتی تھی۔ ‘‘
اور یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن سے ان کا رب فرما رہا ہے:
﴿قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللّٰهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾
’’(اے پیغمبر!) کہہ دیجیے کہ میں تو اللہ کی مرضی کے بغیر اپنے لیے کسی نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو اپنے لیے بہت سی بھلائیاں جمع کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی،میں تو صرف مومنوں کو ڈرانے اور خوشخبری