کتاب: ارکان اسلام و ایمان - صفحہ 31
((يَا خَالُ! قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ،فَقَالَ: أَخَالٌ أَمْ عَمٌّ؟ فَقَالَ: بَلْ خَالٌ» فقَالَ: خَيْرٌ لِي أَنْ أَقُولَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ))
’’ماموں جان! ’’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ‘‘ کہو۔ اس نے کہا :ماموں یا چچا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میرے لیے ماموں کی حیثیت رکھتے ہو‘‘ تو اس نے کہا: کیا میرے لیے ’’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ‘‘ کہنا بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ہاں! بہتر ہے۔‘‘[1]
کلمہ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ اسی وقت کسی شخص کے لیے مفید ہوتا ہے جب وہ اس کے معانی کو اپنے لیے ضابطۂِ حیات بناتا ہے اور مُردوں یا غیر موجود زندوں کو پکارنے جیسے شرکیہ اعمال سے اس کلمے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ اور جس کسی نے ایسا کیا،اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے وضو کر کے توڑ دیا ہو (چنانچہ جیسے وضو کر کے توڑ دینے والے شخص کو اپنے اس وضو کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا،ایسے ہی وہ شخص ہے جس نے ایمان لانے کے بعد کوئی شرکیہ کام کیا،اسے اپنے اس ایمان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ أَنْجَتْهُ يَوْمًا مِنْ دَهْرِهِ أَصَابَهُ قَبْلَ ذَلِكَ مَا أَصَابَهُ))
’’جس نے کلمہ ’’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ‘‘ کہہ دیا تو ایک دن اسے اس کلمہ کی وجہ سے ضرور نجات ملے گی،اگرچہ اس سے پہلے اس کو (جو کچھ لکھا ہے) بھگتنا پڑے۔‘‘[2]
[1] مسند أحمد : 154/3 و انظر أحکام الجنائز للألبانی،ص: 11،مرنے والے کو تلقین اس کی موت سے پہلے کرنی چاہیے نہ کہ بعد میں ،مذکورہ حدیث کے آخر میں ہے کہ جس کا آخری کلام لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ ہوا وہ جنت میں داخل ہو گیا۔ جبکہ مردہ شخص نہ تو لاَ إِِلٰہَ إِِلَّا اللّٰہ کہہ سکتا ہے اور نہ ہی اس میں سننے کی صلاحیت ہے۔
[2] شعب الإیمان،باب فی الإیمان باللّٰہ عز وجل ،حدیث : 98,97 و صححہ الألبانی فی سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ ،حدیث : 1932