کتاب: ارکان اسلام و ایمان - صفحہ 26
((أَنْ تَعْبُدَ اللّٰهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ،فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ)) ’’(احسان) یہ ہے کہ تو اللہ کی اس طرح عبادت کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے اگر تو اسے دیکھنے کا تصور پیدا نہیں کر سکتا تو پھر یہ خیال کر کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘ اس نے کہا: مجھے قیامت کے متعلق بتائیے کہ کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ)) ’’اس کے متعلق جس سے پوچھا جا رہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔‘‘ اس نے کہا: تو پھر مجھے اس کی علامتیں بتائیے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا،وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ)) ’’(اس کی علامت یہ ہے کہ) لونڈی اپنے آقا کو جنم دے گی اور تم دیکھو گے کہ بکریوں کے چرواہے جو ننگے پاؤں،برہنہ جسم اور محتاج ہیں (وہ اس قدر مالدار ہو جائیں گے کہ) بلند عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے بڑھ کر مقابلہ کریں گے۔‘‘ وہ چلا گیا تو میں کافی دیر بیٹھا رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ((يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟ قُلْتُ: اللّٰهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ،قَالَ: «فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ)) ’’اے عمر! جانتے ہو یہ سائل کون تھا؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ وہ جبریل تھے جو تمھیں تمھارا دین سکھانے آئے تھے۔‘‘[1]
[1] صحیح مسلم،الإیمان،باب بیان الإیمان والإسلام … ،حدیث : 8