کتاب: ارکان اسلام و ایمان - صفحہ 185
اس حدیث میں نمازی کے آگے اس کے سجدے کی جگہ سے گزرنے میں بہت بڑے گناہ کی وعید سنائی گئی ہے،اور اگر گزرنے والے کو اس گناہ کا علم ہو جائے تو وہ چالیس سال انتظار کرنا تو برداشت کر لے لیکن نمازی کے آگے سے نہ گزرے،البتہ اس کے لیے نمازی کی سجدہ گاہ سے دور سے گزرنے میں کوئی حرج نہیں۔ [1]
بخاری شریف کی مذکورہ بالا حدیث جس میں نمازی کے آگے سے گزرنے کی ممانعت کا ذکر ہے،اپنے عموم کے لحاظ سے مسجد الحرام (بیت اللہ) اور مسجد نبوی کو بھی شامل ہے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث مکہ یا مدینہ ہی میں بیان فرمائی،جہاں مسجدالحرام اور مسجد نبوی ہیں۔
اس بات کی دلیل یہ بھی ہے کہ امام بخاری نے باب : یَرُدُّ الْمُصَلِّی مَنْ مَرَّبَیْنَ یَدَیْہِ کے تحت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے بیت اللہ میں تشہد کے دوران میں آگے سے گزرنے والے کو روکا اور فرمایا:
((إِنْ أَبَى إِلَّا أَنْ تُقَاتِلَهُ فَقَاتِلْهُ))
’’اگر کوئی سختی کیے بغیر نہیں رکتا تو اس سے لڑو۔‘‘[2]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں،اس روایت میں بیت اللہ کا اس لیے ذکر کیا گیا ہے تاکہ
[1] نمازی کے آگے اگر سترہ نہ ہو،تو گزرنے والا کتنے فاصلے سے گزر سکتا ہے؟ اس کی بابت ابوداود میں ایک حدیث آتی ہے کہ پتھر پھینکنے کے بقدر دوری سے گزرنا جائز ہے۔ لیکن یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ بعض علماء نے اس کا اندازہ تین صف بیان کیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اتنے فاصلے سے گزرنا جائز ہے کہ نمازی کی نگاہ اس پر نہ پڑے۔ اور نمازی کی نگاہ اپنی سجدہ گاہ پر ہو،( جیسا کہ حکم ہے) تو اس کی نگاہ تین صف کے بقدر دوری سے گزرنے والے پر نہیں پڑتی،یا کم از کم اس کی شناخت اسے نہیں ہوتی،اس لیے تین صف والی رائے صحیح معلوم ہوتی ہے۔ اس سے کم فاصلے پر نمازی کے آگے سے گزرنا ممنوع اور اس سے زیادہ یا اس کے بقدر فاصلے سے گزرنا جائز ہوگا۔
[2] صحیح البخاری،الصلاۃ،باب یرد المصلی من مر بین یدیہ،رقم الباب : 100