کتاب: ارکان اسلام و ایمان - صفحہ 160
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ تَرَكَ ثَلَاثَ جُمَعٍ تَهَاوُنًا بِهَا, طَبَعَ اللّٰهُ عَلَى قَلْبِهِ)) ’’جو شخص سستی،حقارت اور معمولی سمجھتے ہوئے تین جمعے چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل پر (گمراہی کی) مہر لگا دیتا ہے۔‘‘[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَقَدْ هَمَمْتُ أَنَّ آمُرَ فِتْيَانِيفيجمعوا حِزَمًا من حطبٍ،ثمَّ آتي قومًا يُصلُّون في بيوتِهم ليست بهم عِلَّةٌ فأُحرِقُها عليهم)) ’’میں نے ارادہ کیا کہ اپنے جوانوں کو لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں،پھر میں ان لوگوں کے پاس جاؤں جو کسی عذر کے بغیر اپنے گھروں میں نماز پڑھتے ہیں (اور انھیں کوئی بیماری نہیں ہے) تو میں ان سمیت ان کے گھروں کو جلا دوں۔‘‘[2] نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: ((مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ يَأْتِهِ،فَلَا صَلَاةَ لَهُ،إِلَّا مِنْ عُذْرٍ)) ’’جو شخص اذان سنے اور اس پر لبیک نہ کہے تو اس کی نماز نہیں ہوتی الاّ یہ کہ کوئی (شرعی) عذر ہو۔‘‘[3] نماز باجماعت کی اہمیت اس حدیث سے بھی واضح ہوتی ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک نابینا آدمی آیا۔ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!
[1] سنن أبی داود،الصلاۃ،باب التشدید فی ترک الجمعۃ،حدیث : 1052 وجامع الترمذی،الجمعۃ،باب ماجاء فی ترک الجمعۃ من غیر عذر ،حدیث : 500 [2] صحیح مسلم،المساجد،باب فضل صلاۃ الجماعۃ،حدیث : 652,651 وسنن أبی داود،الصلاۃ،باب التشدید فی ترک الجماعۃ،حدیث : 549 واللفظ لہ [3] سنن ابن ماجہ،المساجد والجماعات،باب التغلیظ فی التخلف عن الجماعۃ،حدیث : 793