کتاب: ارکان اسلام و ایمان - صفحہ 141
وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ،وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ،وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ،فإِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ،وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ،تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ))
’’یا اللہ! مجھے ہدایت دے کر ان لوگوں کے زمرے میں شامل فرما جنھیں تونے رشد و ہدایت سے نوازا ہے اور مجھے عافیت دے کر ان لوگوں میں شامل فرما جنھیں تو نے عافیت بخشی ہے۔ اور جنھیں تونے دوست بنایا ہے ان میں مجھے بھی شامل کر کے اپنا دوست بنا لے،اور جو کچھ مجھے عطا فرمایا ہے اس میں برکت ڈال دے۔ اور جس شر و برائی کا تو نے فیصلہ کیا ہے اس سے مجھے محفوظ رکھ،یقینا تو ہی فیصلہ صادر فرماتا ہے اور تیرے خلاف فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا۔ اور جس کا تو والی بنا وہ کبھی ذلیل و خوار اور رسوا نہیں ہو سکتا اور وہ شخص عزت نہیں پا سکتا جسے تو دشمن کہے۔اے ہمارے رب! تو (بڑا) ہی برکت والا اور بلند و بالا ہے۔‘‘[1]
( اگر آپ مسجد میں آئے ہیں اور امام رکوع کی حالت میں ہے تو تکبیر کہہ کر امام کے ساتھ رکوع میں مل جائیں اور اگر آپ امام کے سر اٹھانے سے قبل رکوع میں مل گئے تو آپ کی یہ رکعت ہو گئی لیکن اگر امام نے سر اٹھا لیا تو پھر یہ رکعت شمار نہیں ہو گی۔[2]
[1] سنن أبی داود،الوتر،باب القنوت فی الوتر،حدیث : 1426,1425 وجامع الترمذی،الوتر،باب ماجاء فی القنوت فی الوتر،حدیث : 464
[2] امام کے ساتھ رکوع میں مل کر رکعت شمار کرنے والی رائے محل نظر ہے۔ مقتدی کو سورئہ فاتحہ کی تکمیل کر کے رکوع میں شامل ہونا چاہیے اور اگر سورئہ فاتحہ کو پورا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر امام کے ساتھ رکوع میں چلا جائے اور یہ رکعت بعد میں پوری کر لے،کیونکہ رکوع میں ملنے والے کے دو رکن فوت ہو گئے ہیں ایک قیام اور دوسرا قراء ت فاتحہ۔ اور کسی رکعت کا ایک رکن بھی فوت ہو جائے،تو وہ رکعت نہیں ہوتی تو پھر دو رکن فوت ہو جانے کے باوجود اس رکعت کا شمار کرنا کیسے صحیح ہوگا۔ واللّٰہ أعلم