کتاب: ارکان اسلام و ایمان - صفحہ 136
پڑھتے وقت) اپنے چہرے اس مسجد کی طرف پھیر لیا کرو۔‘‘[1]
جس آدمی کے سامنے قبلہ ہو وہ بالکل اس کی طرف منہ کرے اور جس کے سامنے قبلہ نہ ہو وہ اس کی جہت کی طرف متوجہ ہو جائے کیونکہ یہی اس کی طاقت میں ہے۔
(6) قبلہ کی طرف متوجہ ہونا انتہائی ضروری ہے۔ صرف درج ذیل صورتوں میں قبلہ کی طرف متوجہ ہونا ضروری نہیں۔
( مسافر کا سواری پر نفلی نماز پڑھنا جائز ہے۔ وہ رکوع اور سجدہ کے لیے اشارہ کرے گا اور سجدہ کے لیے سر کو رکوع سے زیادہ نیچا کرے گا،اس کا قبلہ اسی طرف ہو گا جس طرف اس کی سواری،گاڑی،کشتی یا جہاز کا رخ ہو۔
( خوف زدہ،مجبور اور بیمار اگر قبلہ کی طرف منہ کرنے سے عاجز ہوں تو وہ غیر قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھ سکتے ہیں۔
(7) آدمی جو نماز پڑھنا چاہتا ہے،اس کی دل میں نیت کرے۔[2]نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إنَّما الأعْمالُ بالنِّيّاتِ،وإنَّما لِكُلِّ امْرِئٍ ما نَوى))
’’تمام کام نیتوں پر موقوف ہیں اور ہر آدمی کو اس کی نیت ہی کے مطابق پھل
[1] البقرۃ 144:2
[2] فقہ السنہ: 271/1۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ الفاظ سے نیت کرنا علمائے مسلمین میں سے کسی کے نزدیک بھی مشروع نہیں،خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،خلفائے راشدین اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور اس امت کے اسلاف و ائمۂ کرام میں سے کسی سے بھی نیت زبان سے ادا کرنا ثابت نہیں۔ عبادات ،مثلاً: وضو،غسل،نماز،روزہ اور زکاۃ وغیرہ میں جو نیت واجب ہے،ائمہ مسلمین کے نزدیک بالاتفاق اس کی جگہ دل ہے۔ (الفتاویٰ الکبریٰ)حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ یہ ایسی بدعت ہے جس کا ایک ثبوت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بسند صحیح،ضعیف،مسند یا مرسل ثابت نہیں بلکہ صحابہ و تابعین سے بھی اس کا ثبوت نہیں اور ائمہ اربعہ میں سے بھی کسی نے اس کو مستحسن نہیں کہا۔ (زاد المعاد: 201/1)