کتاب: ارکان اسلام و ایمان - صفحہ 110
’’جس نے میت کو غسل دیا وہ غسل کرے اور جس نے اسے اٹھایا وہ وضو کرے۔‘‘[1] ( احرام کے لیے غسل : جمہور کے نزدیک حج اور عمرہ کرنے والے کے لیے احرام سے پہلے غسل کرنا مستحب ہے۔ ( مکے میں داخلے سے قبل غسل : مکہ میں داخل ہونے سے پہلے غسل کرنا مستحب ہے۔ آخری دونوں موقعوں پر غسل کرنے کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے۔ غسل سے متعلقہ مسائل ( حیض اور جنابت،جمعہ اور عید یا جنابت اور جمعہ سے ایک غسل کافی ہوجائے گا،بشرطیکہ غسل کرتے وقت دونوں کی اکٹھی نیت کرے۔ کیونکہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى)) ’’ہر آدمی کے لیے وہی ہے جو اس نے نیت کی۔‘‘[2] ( اگر آدمی جنابت کا غسل کرکے وضو نہ کرے تو یہ غسل وضو کے قائم مقام ہو گا۔ امام ابوبکر العربی فرماتے ہیں: اس میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں کہ وضو،غسل میں آجاتا ہے اور جنابت سے طہارت کی نیت کرنے سے حالت حدث ختم ہوجاتا ہے،یعنی غسل جنابت وضو کی جگہ کفایت کرجائے گاکیونکہ اس میں پہلے وضو کیا جاتا ہے۔ ( اگر آدمی(مرد) کسی کا ستر دیکھنے سے بچ سکے اور اپنے ستر کو لوگوں کی نظر سے محفوظ رکھ سکے تو اجتماعی حمام میں داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں۔ [3]
[1] السنن الکبریٰ للبیہقی : 303/1 [2] صحیح البخاری،بدء الوحی،باب کیف کان بدء الوحی … ،حدیث : 1 [3] حمام سے مراد موجودہ حمام نہیں بلکہ پہلے زمانے کے تالاب نما حمام ہیں جن میں لوگ اکٹھے نہاتے تھے۔ آج کل کے ایسے تالاب جہاں اجتماعی طور نہایاجاتا ہے،جیسے سوزوواٹر وغیرہ،بھی اسی زمرے میں شامل ہیں۔ اگر وہاں پردے وغیرہ کا اہتمام نہ ہو تو وہاں نہانا درست نہیں۔ یاد رہے مرد کا ناف سے گھٹنوں تک کا حصہ ستر ہے جس کا چھپانا ضروری ہے۔