کتاب: کتاب التوحید عقیدہ توحید اور دین خانقاہی ( صوفی ازم ) - صفحہ 92
۱۹۷۵ء میں شہنشاہ ایران نے سونے کا دروازہ سید علی ہجویری ----- کے مزارکی نذر کیا جسے پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم نے اپنے ہاتھوں سے دربار میں نصب فرمایا ۔۱۹۸۹ء میں وفاقی گورنمنٹ نے جھنگ میں ایک مزار کی تعمیر وتزئین کے لئے ۶۸ لاکھ روپیہ کا عطیہ سرکاری خزانے سے ادا کیا ۱۹۹۱ء[1] میں سید علی ہجویری کے عرس کے افتتاح وزیر اعلیٰ پنجاب نے مزار کو ۴۰ من عرق گلاب سے غسل دے کر کیا [2]جبکہ امسال ’’داتا صاحب‘‘کے ۹۴۸ ویں عرس کے افتتاح کے لئے جناب وزیر اعظم صاحب بنفس نفیس تشریف لے گئے مزارپر پھولوں کی چادر چڑھائی ‘فاتحہ خوانی کی ‘مزار سے متصل مسجد میں نماز عشاء ادا کی اور دودھ کی سبیل کاافتتاح کیا نیز ملک میں شریعت کے نفاذ کشمیر اور فلسطین کی آزادی افغانستان میں امن واستحکام اور ملک کی یک جہتی ترقی اور خوشحالی کے لئے دعائیں کیں ۔[3]گزشتہ دنوں وزیر اعظم صاحب ازبکستان تشریف لے گئے جہاں انہوں نے چالیس لاکھ ڈالر (تقریبا ایک کروڑ روپیہ پاکستانی )امام بخاری رحمہاﷲ کے مزار کی تعمیر کے لئے بطور عطیہ عنایت فرمائے [4]
مذکورہ بالا چند مثالوں کے بین السطور ‘اہل بصیر ت کے سمجھنے کے لئے بہت کچھ موجود ہے ایسی سرزمین جس کے فرمانروا خود ’’خدمتِ اسلام‘‘سر انجام دے رہے ہوں وہاں کے عوام کی اکثریت اگر گلی گلی ‘محلہ محلہ ‘گاؤں گاؤں ‘شب وروز مراکز شرک قائم کرنے میں مصروف عمل ہوں تو اس میں تعجب کی کونسی بات ہے ؟کہاجاتا ہے الناس علی دین ملوکھم (یعنی عوام اپنے حکمرانوں کے دین پر چلتے ہیں)
یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں لاالہ الاﷲ
[1] صحیفہ اہل حدیث کراچی ۱۶ دسمبر ۱۹۸۹ء
[2] روزنامہ جنگ ۲۳ جولائی ۱۹۹۱ء
[3] روزنامہ جنگ ۱۹ اگست ۱۹۹۲ء
[4] مجلہ الدعوۃ اگست ۱۹۹۲ء