کتاب: کتاب التوحید عقیدہ توحید اور دین خانقاہی ( صوفی ازم ) - صفحہ 91
نشان نظر نہیں آرہا ؟اگر اس کا سبب جہالت قرار دیا جائے تو جہالت ختم کرنے کی ذمہ داری حکمرانوں پر تھی اگر اس کا سبب نظام تعلیم قرار دیا جائے تو دین خانقاہی کے علمبرداروں کو راہ راست پر لانا بھی حکمرانوں کی ذمہداری تھی لیکن المیہ تو یہ ہے کہ توحید کے نفاذ کے مقدس فریضہ کی بجاآوری تو رہی دور کی بات ‘ہمارے حکمران کود کتاب وسنت کے نفاذ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتے آئے ہیں ۔سرکاری سطح پر شرعی حدود کو ظالمانہ قرار دینا ‘قصاص ‘دیت اور قانون شہادت کو دقیانوسی کہنا ‘اسلامی شعائر کامذاق اڑانا ‘سودی نظام کے تحفظ کے لئے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانا ‘عائلی قوانین اور فیملی پلاننگ جیسے غیر اسلامی منصوبے زبردستی مسلط کرنا ‘ثقافتی طائفوں ‘قوالوں ‘مغنیوں اور موسیقاروں کو پذیرائی بخشنا[1]سال نو او رجشن آزادی جیسی تقاریب کے بہانے شراب وشباب کی محفلیں منعقد کرنا ہمارے عزت مآب حکمرانوں کا معمول بن چکا ہے دوسری طرف خدمت اسلام کے نام پر حکمران(الا ماشاءاﷲ)جو کارنامے سرانجام دیتے چلے آرہے ہیں ان میں سب سے نمایا اور سرفہرست دین خانقاہی سے عقیدت کا اظہار اور اس کا تحفظ شاید ہمارے حکمرانوں کے نزدیک اسلام کا سب سے امتیازی وصف یہی ہے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح رحمۃاﷲ علیہ سے لے کر مرحوم محمدضیاء الحق تک اور حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمہاﷲسے لے کر حفیظ جالندھری تک تمام قومی لیڈروں کے خوبصورت سنگ مرمر کے منقش مزار تعمیر کرائے جائیں ان پر مجاور (گارڈ)متعین کیے جائیں قومی دنوں میں ان مزاروں پر حاضری دی جائے ۔پھولوں کی چادریں چڑھائی جائیں ۔سلامی دی جائے فاتحہ خوانی اور قرآن خوانی کے ذریعے انہیں ثواب پہنچانے کا شغل فرمایا جائے تو یہ دین اسلام کی بہت بڑی خدمت ہے ۔
یاد رہے بانی پاکستان محمد علی جناح رحمۃاﷲعلیہ کے مزار کی دیکھ بھال اور حفاظت کے لئے باقاعدہ ایک الگ مینجمنٹ بورڈ قائم ہے جسکے ملازمین سرکاری خزانے سے تنخواہ پاتے ہیں گزشتہ برس مزار کے تقدس کے خاطر سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے مزار کے اردگرد ۶ فرلانگ کے علاقہ میں مزار سے بلند کسی بھی عمارت کی تعمیر پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔(روزنامہ جنگ ۱۳ اگست ۱۹۹۱ء) [2]
[1] ایک ضیافت میں وزیر اعظم نے پولیس بینڈ کی دلکش دھنوں سے خوش ہوکر بینڈ ماسٹر کو پچاس ہزار روپیہ ۔۔۔ انعام دیا ۔(الاعتصام ۵جون ۱۹۹۲ئ)
[2] یاد رہے مکہ معظمہ میں بیت اﷲشریف کی عمارت کے اردگرد بیت اﷲشریف سے دوگنی تگنی بلند وبالا عمارتیں موجود ہیں جو مسجد الحرام کے بالکل قریب واقع ہیں اسی طرح مدینہ منورہ میں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد روضہ مبارک سے دوگنی تگنی بلند وبالا عمارتیں موجود ہیں جن میں عام لوگ رہائش پذیر ہیں ۔علماء کرام کے نزدیک ان رہائشی عمارتوںکی وجہ سے نہ تو بیت اﷲشریف کا تقدس مجروح ہوتا ہے نہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا۔