کتاب: کتاب التوحید عقیدہ توحید اور دین خانقاہی ( صوفی ازم ) - صفحہ 89
لوگ ‘مسلمان پیروں فقیروں کے مرید کیوں بن گئے اور مسلمان ہندوسادھو اور جوگیو کے گیان دھیان میں کیوں حصہ لینے لگے [1]اس اختلاط کا نتیجہ یہ ہے کہ ہندو پاک کے مسلمانوں کی اکثریت جس اسلام پر آج عمل پیرا ہے اس پر کتاب وسنت کی بجائے ہندو مذہب کے نقوش کہیں زیادہ گہرے اور نمایاں ہیں۔ ۶۔حکمران طبقہ برصغیر پاک وہند میں شرک وبدعت کے اسباب تلاش کرتے ہوئے یہ بات کہی جاتی ہے کہ چونکہ یہاں اسلام پہلی صدی ہجری کے آخر میں اس وقت پہنچا جب محمد بن قاسم رحمہاﷲ نے ۹۳ھ میں سندھ فتح کیا اس وقت محمد بن قاسم رحمہاﷲاور اس کی افواج کے جلد واپس چلے جانے کی وجہ سے اولاً اسلام خالص کتاب وسنت کی شکل میں پہنچا ہی نہیں ثانیاً اسلام کی یہ دعوت بڑے محدود پیمانے پر تھی یہی وجہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانواں کی اکثریت کے افکار واعمال میں مشرکانہ اور ہندوانہ رسم ورواج بڑے واضح اور نمایاں ہیں۔ تاریخی اعتبار سے یہ بات درست ثابت نہیں ہوتی امر واقعہ یہ ہے کہ سرزمین برصغیر عہد فاروقی (۱۵ھ)سے ہی صحابہ کرام رضواناﷲ علیہم اجمعین کے ورود مسعود سے بہرہور ہونی شروع ہوگئی تھی عہدِ فاروقی اور عہد عثمانی میں اسلامی ریاست کے زیر نگیں آنے والے ممالک میں شام ‘مصر ‘عراق‘یمن ‘ترکستان‘سمرقند‘بخارا‘ترکی‘افریقہ اور ہندوستان میں مالا بار ‘جزائر سراندیپ ‘مالدیپ ‘گجرات اور سندھ کے
[1] زبدۃ العارفین قدوۃ السالکین حافظ غلام قادر اپنے زمانے کے قطب الاقطاب اور غوث الاغواث اور محبوب خدا تھے جن کا فیض روحانی ہرخاص وعام کے لئے اب تک جاری ہے یہی وجہ تھی کہ ہندو ‘سکھ ‘عیسائی ‘ہر قوم اور فرقہ کے لوگ آپ سے فیض روحانی حاصل کرتے تھے ‘آپ کے عرس میں تمام فرقوں کے لوگ شامل ہوتے تھے آپ کے تمام مریدان باصفا فیض روحانی سے مالا مال اور پابند شرع شریف ہیں (ریاض السالکین صفحہ ۲۷۲ بحوالہ شریعت وطریقت صفحہ ۴۷۷) دوسری طرف اسماعیلیہ فرقہ کے پیر شمس الدین صاحب کشمیر تشریف لائے تو تقیہ کرکے اپنے آپ کو یہاں کے باشندوں کے رنگ میں رنگ لیا ایک دن جب ہندو دسہرے کی خوشی میں گربا رقص کررہے تھے پیر صاحب بھی اس رقص میں شریک ہوگئے اور ۲۸ گربا گیت تصنیف فرمائے اسی طرح ایک دوسرے پیر صدرالدین صاحب(اسماعیلی)نے ہندوستان میں آکر اپنا ہندووانہ نام ’’ساہ دیو‘‘(بڑا درویش)رکھ لیا اور لوگوں کو بتایا کہ وشنو کا دسواں اوتار حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی شکل میں ظاہر ہوچکا ہے ‘اس کے پیرو صوفیوں کی زبان میں محمد اور علی کی تعریف کے بھجن گایا کرتے تھے ۔(اسلامی تصوف میں غیر اسلامی تصوف کی آمیزش صفحہ ۳۲-۳۳)