کتاب: کتاب التوحید عقیدہ توحید اور دین خانقاہی ( صوفی ازم ) - صفحہ 72
نظام الدین اولیاء جیسے کبار اولیاء کرام شامل ہیں ہم یہاں مثال کے طور پر جناب احمد رضا خاں بریلوی کے الفاظ نقل کرنے پر ہی اکتفاکریں گے فرماتے ہیں ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام نے درخت سے اِنِّی اَنَاااللّٰه یعنی میں اﷲ ہوں ‘کیا درخت نے یہ کہا تھا ؟حاشا ‘بلکہاﷲ نے ‘یونہی یہ حضرات (اولیاء کرام)انا الحق کہتے وقت شجر موسیٰ ہوتے ہیں[1] (احکام شریعت صفحہ۳ ۹)حضرت بایزید بسطامی نے بھی اسی عقیدے کی بنیاد پر یہ دعوی کیا سُبْحَانِیْ مَا أَعْظَمُ شَأْنِیْ (میں پاک ہوں میری شان بلند ہے )وحدت الوجود یا حلول کا نظریہ ماننے والے حضرات کو نہ توخود خدائی کا دعویٰ کرنے میں کوئی دقت محسوس ہوتی ہے‘نہ ہی ان کے پاس کسی دوسرے کے دعوی خدائی کو مسترد کرنے کا کوئی جواز ہوتا ہے[2]یہی وجہ ہے کہ صوفیاء کی شاعری میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے پیرومرشد کواﷲکا روپ یا اوتار کہنے کے عقیدہ کا اظہار بکثرت پایا جاتا ہے ‘چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
(۱) خدا کہتے ہیں جس کو مصطفی معلوم ہوتا ہے
جسے کہتے ہیں بندہ خود خدا معلوم ہوتا ہے
(۲) بجاتے تھے جو انی عبد ہ کی بنسر ی ہر دم
خدا کے عرش پر انی أناااللّٰه بن کے لکلیں گے
(۳) شریعت کا ڈر ہے وگرنہ یہ کہہ د وں
خدا خود رسول خدا بن کے آیا ہے
[1] شریعت وطریقت از مولانا عبدالرحمن کیلانی صفحہ ۷۴
[2] یہاں ایک واقعہ کا تذکرہ یقینا قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگا جسے’’ حقیقت الوجود ‘‘کے مصنف عبدالحکیم انصاری نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے جو کہ حسب ذیل ہے ’’ہمارے ایک چشتیہ خاندان کے پیر بھائی صوفی جی کے نام سے مشہور تھے ایک دن میرے پاس آئے تو ہم مل کر چائے پینے لگے چائے پیتے پیتے صوفی جی کے چہرے پر ’’کیفیت ‘‘کے اثر نمایاں ہوئے چہرہ سرخ ہوگیا آنکھوں میں لال ڈوریء ابھر آئے پھر کچھ نشہ کی سی حالت طاری ہوئی یکایک صوفی جی نے سراٹھایا اورکہنے لگے ’’بھائی جان میں خدا ہوں‘‘اس پر میں نے زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور اس کے دوٹکڑے کرکے صوفی جی سے کہا’’آپ خدا ہیں تو اسے جوڑ دیجئے ‘‘صوفی جی نے دونوں توٹے ہوئے ٹکڑوں کو ملاکر ان پر ’’توجہ ‘‘فرمائی لیکن کیا بننا تھا ساتھ ہی ان کی وہ کیفیت بھی غائب ہوگئی جس کی وجہ سے وہ خدائی کا دعویٰ کررہے تھے۔ (شریعت وطریقت صفحہ ۹۴)۔